• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(ممبر پنجاب اسمبلی)
ڈونلڈ جان ٹرمپ 14جون1946میںنیویارک میں فریڈ رک کے گھر پیدا ہوا۔برج جوزا کے تحت پیدا ہونے والے اس غیر معمولی بچے کے خون میں دولت اور شہرت کو باندی بنانے کی خواہش شروع سے ہی موجزن تھی۔وارٹن بزنس اسکول پنسلوانیا سے اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے اسکول کے نعرہ تعلیم برائے عمل پر پورا پوراعمل کردکھایا اور وہ اپنی دادی کی رئیل اسٹیٹ کمپنی الزبتھ کرائسٹ ٹرمپ چلانے کیلئے واحد کامیاب امیدوار ٹھہرا۔1971میں کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کمپنی کانام بدل کر دی ٹرمپ آرگنائزیشن رکھ دیا۔ اسکے دیگر حالات زندگی پر روشنی ڈالنے سے قبل یہ جان لیں کہ ستارہ شناسی کا علم اس کے برج جوزا کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اس برج کے تحت پیدا ہونے والے اکثر افراد میں اعلیٰ ترین اشرافی زندگی کے حصول کیلئے موثروائرس بھرپور تعداد میںموجود ہوتے ہیں۔ نمایاں بنے رہنے کی خواہش کے تابع ان افراد میں اپنے خیالات کےبرملا اظہار کے ساتھ ساتھ اسے دوسروں پر مسلط کرنے کی خاصیت کوٹ کوٹ کر پائی جاتی ہے۔ تخلیق کرنے کی تیز ترین صلاحیت رکھنے کی وجہ سےیہ افرادمسائل کو حل کرنے کیلئے روایت سے ہٹ کر نیا نویلا فارمولا پیش کرتے ہیںاور اپنے حل کو درست منوانے کی ضد کرتے ہیںچاہے وہ زمینی حقائق کے برعکس ہو۔دولت مند ہونےاورجارحانہ رویہ سے لیس ہونے کی وجہ سے شمع محفل بنے رہنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔قول وقرار کے بارے میں تضاد انکی پہچان قرار پاتا ہے۔اگر ایسے افرادکی نشوو نما راستی سے ہو تووہ سیاست سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسیحا کا روپ اختیار کرلیتے ہیں ورنہ پھر شیطان کے پیرو کار بن کرپراگندگی کے لامحدود پھیلائو کی وجہ قرار پاتے ہیں جس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آتا ہے۔اس صورت میںوہ یہ نہیں جانتے کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ برج جوزا کے تحت پیدا ہونے والے صرف چھ افرادکا ذکر کروں گی تین وہ ہیںجن کی شہرت مثبت ترین رہی ان میں مشہور فرانسیسی ماہر فزکس چارلس آگسٹن کولمب،ٹینس اسٹاراسٹفی گراف اوربھارتی صنعتکارکمار منگلم برلا شامل ہیںجبکہ تین وہ ہیں جن کی شہرت منفی ترین رہی ان میں برطانوی گلوکار جارج بوائے،شیو سینا کے سابق رہنماراج شری کانت ٹھاکرے اور تیسرانام ڈونلڈ جان ٹرمپ ہی ہےجو اس تحریر کو قلم زد کرنے کی وجہ بنا۔ اس کے باپ فریڈرک ٹرمپ نے 93سال کی عمر پائی اوراس نےنیویارک میں قائم یہودی اسپتال کی مستقل مالی مدد کیلئے چیرٹی قائم کی۔ وہ ڈویلپمنٹ کارپوریشن فار اسرائیل DCIکیلئے زمین اور فنڈز فراہم کرنے کیلئے ساری زندگی کام کرتا رہااور اس کیلئے فنڈز فراہم کرتے رہنے کی وصیت کرکے گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نےتین شادیاں کیں۔پہلی شادی1977میں31سال کی عمر میں چیکو سلوواکیہ کی ماڈل ایوانا زیلن چکووا سے کی جس سے اس کے تین بچے ڈونلڈ جونیئر،بیٹی ایوانکا اور بیٹا ایرک پیدا ہوئے۔بیٹی ایوانکانے یہودی سے شادی سے قبل یہودی مذہب کو باقاعدہ اپنا لیا تھا۔۔ڈونلڈ ٹرمپ کےٹی وی ایکٹریس مارلہ میپلز سے تعلقات منظر عام آنے پر13سال بعداسکی پہلی بیوی نے اس پرظالم اورغیر انسانی ہونے ہونےکے الزامات کے تحت طلاق لے لی۔بعد ازاں1993میں ٹرمپ نے مارلہ کے ساتھ دوسری شادی کرلی جس سے ایک بیٹی ٹفنی پیدا ہوئی یہ شادی صرف 6سال چل پائی۔1998میں ایک فیشن شو میں ٹرمپ کی ملاقات موجودہ خاتون اول سولوینا کی ماڈل میلانیا میپلز سے ہوئی جو شناسائی سے تعلق میں بدلی اور 7سال بعد 2005میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔جس کےبعد اس نے بیٹے بیرن کو جنم دیا۔ پہلی اور تیسری بیوی میںمشترک بات روسی اور یہودی ہونا ہےجس کی وجہ سے تمام خاندان کے کاروباری اورسیاسی تعلقات میں یہودی ازم غالب ہے۔دولت کمانے، شہرت پانے اور طاقتور حلقوں تک رسائی کے حصول کیلئےاس نے مس امریکہ اور مس یونیورس کے مقابلے کروانے والی دو کمپنیاں قائم کیں جن کا وہ بدستور مالک ہے۔صدر بننے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے تین بار اپنی سیاسی جماعت بدلی۔1987 سے 1999 تک وہ ریپبلکن پارٹی میں رہا۔ 2000میں ریفارم پارٹی بنا ڈالی اور خوو کو صدارتی امیدوار نامزد کردیالیکن ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے دستبردار ہوگیا۔اگلے سال 2001میں وہ ڈیموکریٹ پارٹی میں شامل ہوا اور 8سال تک اس میں رہا اور 2010میں اس سے علیحدہ ہوگیا۔متلون مزاجی اور چمک کی بدولت وہ دوبارہ 2012 میں ری پبلکن پارٹی میںشامل ہوگیا۔2015 میں اس نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا جس کے اگلے سال اس کے مدمقابل بیٹھ گئے اور وہ ری پبلکن پارٹی کا واحد امیدوار بنا جس کے بعد اس کا مقابلہ ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن سے ہوا۔جب اس نے امریکی صدارتی انتخاب کی مہم شروع کی تو سب نے غیر سنجیدہ اور پٹا ہوا امیدوار قرار دیا۔ صدارتی انتخاب کے قریب آتے آتے تقریباً تمام پولز میںاس کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن کو سنجیدہ اور فاتح جانا گیالیکن انتشار سے بھرپورخیالات دنیا بھر کے سامنے ظاہر کر نے کی وجہ سےوہ دنیا بھر کے میڈیا کی نظروں میں آگیا۔صدارتی انتخا ب لڑنے سے پہلے وہ 2016 میںپراپرٹی اور دیگر کاروبار وں سے کمائے گئےساڑھے چار ارب ڈالر کامالک ہونے کی وجہ سے وہ امریکہ کا 113واں اور دنیا کا 324واں امیر ترین فرد قرار پایا۔ دنیا کا طاقتور ترین شخص بننے کے بعد اورایوان اقتدار میں براجمان ہونے کے بعد اسکی پالیسیوں نے امریکہ سمیت دنیا بھر میں زلزلہ برپا کردیا ہے۔وہ امریکہ کا واحد صدر ہے جس کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کئے گئے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔مغرب سے مشرق تک اسے شیطانی ذہن کا حامل یعنی EVIL GENIUS گردانا جا رہا ہے کیونکہ وہ دولت کمانے کیلئے ہر حد کو پار کرلینا جائز ما نتا ہے۔ جس طرح ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم چلائی اور غیرمتوقع طور پر فاتح قرار پایا وہ حالات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اسے ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے لایا گیا ہے۔ جس کی شروعات غیر متوقع طور پر بہت جلد ہوگئی۔سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکہ داخلہ پر پابندی عائد کرکے متنازع ترین صدر بننے کا اعزازحاصل کر چکا ہے۔تنازعات کا یہ سلسلہ ابھی تک رکنے میں نہیں آرہا ہے کیونکہ ٹرمپ نے اس پر معاملہ پر چند ایک مزید اضافے کرکے نیا حکم نامہ جاری کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ٹرمپ کا خاندانی شجرہ،سیاسی اور کاروباری تعلقات واضح کررہے ہیں کہ یہودی ایجنڈےپر کام کرنے کا آغاز ہوچکا ہے۔بظاہر ٹرمپ نے تارکین وطن کیلئے امریکی زمین تنگ اور امریکیوں کو ملک واپس لانے کیلئےامریکی کمپنیوں کو ایک نیا دھمکی نما نعرہ دیا ہے کہ امریکی اشیا ء خریدو اور امریکیوں کو روزگار پر لگائو ورنہ سزا کا سامنا کرو۔اس کے دبائو میں آتے ہوئےایک بڑی امریکی کمپنی وال مارٹ نے10لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔متعددکمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔ٹرمپ نے جنرل موٹرز کو بھی انتباہ کیا ہے کہ اپنی گاڑیاں امریکہ میں تیار کرو یا پھر بڑے سرحدی ٹیکس کا سامنا کرو۔اس نے ایپل کمپنی پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ اپنے فون چین سے اسمبل کروانے بند کر کے یہ سارا عمل امریکہ میں کروائے۔ٹرمپ کا یہ عمل امریکہ میں نوکریاں پیدا کرنے کا باعث تو بن سکتا ہےاس سے امریکی صارفین کو کوئی فائدہ نہ ملے گا کہ فون سستے نہیں بلکہ مہنگے ہوجائیں گے کیونکہ یہ پالیسی فری مارکیٹ کےان اصولوں کے برخلاف ہےجس کا امریکہ داعی رہا ہے۔ ٹرمپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس پالیسی سے امریکی معیشت تیسری دنیا کی معیشت بن جائے گی۔

.
تازہ ترین