• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 دنوں میں دہشتگردی کی9 کارروائیاں، 100 سے زائد افراد شہید

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی نئی لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، پانچ دنوں میں دہشتگردی کی نو کارروائیوں میں تقریباً سو افراد شہید جبکہ سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، ان نو کارروائیوں میں سب سے خطرناک اور افسوسناک سیہون میں معروف بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش دھماکا ہے جس میں اب تک 72افراد شہید جبکہ 250سے زائد زخمی ہوگئے ہیں،مبینہ طور پر داعش نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔سہون میں کوئی ڈھنگ کا اسپتال اور ایمبولینس سروس نہ ہوتو پھر یہاں حکومت کی کارکردگی پر بات آتی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر دھماکے کے بعد پاکستان کی سویلین و ملٹری قیادت کی طرف سے سخت بیانات آئے ہیں، وزیراعظم نے اس حملے کو پاکستان کے مستقبل پر حملہ قرار دیا ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشتگردوں سے فوری انتقام لینے کا اعلان کیا ہے، دھماکے سے پہلے بھی آرمی چیف کا اہم بیان سامنے آیا تھا جس میں افغانستان کے حوالے سے خاص فوکس نظر آتا ہے، باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں دورے کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ دہشتگرد افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں دوبارہ منظم ہورہے ہیں، اس کے علاوہ فوجی ترجمان کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں دہشتگردی افغانستان میں موجود دشمن قوتوں کی ایما پر کی جارہی ہے، ہم اس کا دفاع بھی کریں گے اور بھرپور جواب بھی دیں گے،دوسری طرف گزشتہ دنوں پشاور حیات آباد میں خودکش حملہ کرنے والے دہشتگرد کی مُلَّا فضل اللہ کے ساتھ تصویر جاری کردی گئی ہے جو افغانستان میں روپوش ہے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں نے آئندہ بھی دہشتگرد حملوں کے حوالے سے وارننگ جاری کی ہے، عوام کا فرض ہے کہ جب سیکیورٹی کے معاملات سخت کیے جارہے ہوں تو وہ سیکیورٹی اداروں سے مکمل طور پر تعاون کریں، اپنے اطراف میں نظر رکھیں اگر کوئی شک ہوتا ہے تو فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع کریں، یہ قوم کیلئے نازک وقت ہے لیکن پاکستان نے اس سے برے حالات دیکھے ہیں، اس کے بعد ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں سے نمٹا ہے، ہماری سیاسی قیادت نے ملک میں اتفاق رائے پیدا کیا ہے اور دہشتگردوں سے لڑائی کی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ مزار پر خودکش حملے کے بعد لوگ وہاں سیکیورٹی انتظامات اور اسپتال نہ ہونے پر احتجاج کررہے ہیں، یہ تنقید کی جارہی ہے کہ ایک ایسا شہر جہاں سے دو وزرائے اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں، جہاں اتنا بڑا مزار ہے جس میں عرس پر ایک لاکھ افراد آتے ہوں وہاں کوئی ڈھنگ کا اسپتال اور ایمبولینس سروس نہ ہوتو پھر یہاں حکومت کی کارکردگی کی بات آتی ہے۔ نمائندہ خصوصی سید عارفین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو اس کا مطلب ہے خودکش حملہ آور انہوں نے فراہم کیا جبکہ انہیں گراؤنڈ سپورٹ ممکنہ طور پر لشکرجھنگوی نے دی ہوگی، اندرون سندھ ہونے والے پچھلے کئی دھماکوں میں لشکر جھنگوی نے گراؤنڈ سپورٹ مہیا کی تھی، ان سہولت کاروں میں اہم ترین نام پندرانی برادران کا تھا، اس میں اہم ترین شخص عبداللطیف پندرانی ہے جس کا نام سندھ کے محکمہ انسداد دہشتگردی کی ریڈ بک میں مطلوب ترین افراد میں شامل ہے، شکارپور میں خودکش حملہ کرنے والوں کو جگہ تک پہنچانے والا عبداللطیف پندرانی تھا۔ سید عارفین کا کہنا تھا کہ دہشتگرد افغانستان سے پاکستان میں انگور اڈہ جنوبی وزیرستان سے داخل ہوتے ہیں اور انڈس ہائی وے کے راستے سے ملک کے دوسرے علاقوں میں پہنچتے ہیں اور یہی انڈس ہائی وے اندرون سندھ سے بھی گزرتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ ساری لڑائی میں تکالیف دونوں ممالک اٹھارہے ہیں، پاکستان میں دہشتگردکارروائیوں کی ذمہ داری افغانستان میں موجود الاحرار گروپ اور مُلا فضل اللہ گروپ قبول کررہاہے، کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان اور افغان حکومتوں کے تعلقات بہتر تھے تو اس دوران ٹی ٹی پی اور داعش کے بہت سے لوگ افغانستان میں بھی نشانہ بنائے گئے اور پاکستان میں بھی ان کی کارروائیوں میں کمی آئی تھی،لیکن اب افغان انٹیلی جنس نے ’را‘ کے ساتھ مل کر اپنے پراکسیز کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاک افغان ڈپلومیسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، دونوں ممالک کو ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے چاہئیں، جس طرح پاکستان یہاں ہونے والے دھماکوں کیلئے افغان سرزمین استعمال ہونے کا الزام لگاتا ہے اسی طرح افغانستان بھی وہاں دھماکوں کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان حکومت کی ان گروپوں کیخلاف کارروائی کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر پاکستان کو افغان حکومت کے بجائے امریکا اور نیٹو ممالک سے شکوہ کرنا چاہئے جو ان گروپوں کیخلاف کارروائی کرسکتے ہیں، افغان حکومت کا عذر ہے کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں ان کی رِٹ نہیں اس لئے وہ ٹی ٹی پی کیخلاف وہاں کارروائی نہیں کرسکتی ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ پاکستانی قیادت کو دہشتگردی کے مسئلہ کا حل اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا ، پاکستان کو افغانستان کو باو ر کروانا چاہئے کہ اس ساری لڑائی میں تکلیف دونوں ملک اٹھارہے ہیں، داعش اور طالبان کے خطرے سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا، پاکستان میں خرابی کی تمام تر ذمہ داری افغانستان پر عائد نہیں کی جاسکتی ہے، مختلف اسلامی ممالک اپنے اپنے فرقوں کے ذریعے پاکستان میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں، ہماری ریاست کا کوئی ایکشن پلان نہیں بلکہ صرف ری ایکشن پلان ہوتا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ پاک افغان بارڈر بند کرنے سے عام افغانی اور مہاجرین کو تکلیف ہوگی، دہشتگرد کبھی شناختی دستاویزات دکھا کر پاکستان میں نہیں آتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی بات اب فضل اللہ تک نہیں رہ گئی ہے ، لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے ،ایک طرف الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی مکمل طور پر داعش کے ساتھ ملی ہوئی ہیں تو دوسری طرف الاحرار تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے، افغانستان میں دہشتگردتنظیموں کی ایسی کھچڑی بن چکی ہے جس کے اہداف افغانستان کی این ڈی ایس کی سوچ سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، داعش اب پاکستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں پر اثرانداز ہورہی ہے، اگر ٹرمپ نے شام میں سخت اقدامات اٹھائے اور داعش کو وہاں سے نکلنا پڑا تو القاعدہ کی طرح داعش بھی افغانستان میں اپنا مرکز بنائے گی،پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بھارت کو بھی داعش کیخلاف متحد ہونا پڑے گا، داعش پاک افغان خطے میں داخل ہوگئی تو پھر اس کا اثر بھارت پر بھی ہوگا۔ شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاک افغان بارڈر غیرمعینہ مدت کیلئے بند کرنا وقتی اور دفاعی قدم ہے، پاکستان کو اپنی حکمت عملی مدافعانہ طرز سے بڑھ کر جارحانہ مدافعت کی طرف لے کر جانی ہوگی، پاکستان کی سیاسی و ملٹری قیادت کو اب جاگنا پڑے گا، پچھلے کچھ مہینوں میں دہشتگرد حملوں میں وقفے سے یہ سمجھا گیا کہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف بڑی حد تک فتح حاصل کرلی ہے، ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو نہ صرف دفاع کرے بلکہ ملک کے اندر یا باہر جارحانہ قدم بھی کرسکے۔ سینئر صحافی علی قاضی نے کہا کہ اندرون سندھ دہشتگردوں کے حملے سندھ کی صوفیانہ حیثیت کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، سندھ کے اندر حملوں میں مقامی عنصر شامل نہیں ہوتا البتہ کچھ لوگوں کا یہ مائنڈ سیٹ ہوسکتا ہے لیکن وہ بہت چھوٹی سی اقلیت ہوگی، سندھ کے معاشرے میں عمومی طور پر ایسی انتہاپسندی کیلئے قبولیت نہیں ہے،پولیس میں اس غیرملکی دہشتگردی کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے لے کر کشمور تک سرکاری اسپتالوں کی حالت ایک جیسی ہے، اندرون سندھ اسپتالوں کی حالت بہت تشویشناک ہے، سیہون کے تعلقہ اسپتال کی حالت سے اندرون سندھ کے اسپتالوں کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  
تازہ ترین