• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی سطح کی بعض سروے رپورٹیں فکر افروز، پریشان کن، حیران کر دینے والی اور فوری عمل کرنے کا مشورہ دینے والی بھی ہوتی ہیں اور شاید ان رپورٹوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے یا ہونا چاہئے۔ سروے رپورٹوں میں کچھ رپورٹیں شرم دلانے والی ہوتی ہیں۔مگر میرے خیال میں ان رپورٹوں سے شرم حاصل کرنے کی بجائے انہیں شرمناک قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک سروے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طویل عرصے سے اخبارات میں سب سے زیادہ جگہ گھیرنے والی خبروں میں ایک خبر اور الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹیلی وژن پروگراموں کا سب سے زیادہ وقت برباد کرنے والے پاناما لیکس کے بارے میں پاکستان کے سو میں سے زیادہ سے زیادہ بیس لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ کیا بلا ہے سو میں سے 80 سے زیادہ اس کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے ہوں گے مگران میں سے اکثر اس موضوع پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہوںگے۔اس شرمناک اور پریشان کن صورت حال کی وجہ کیا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے مگر اس پر کوئی نہیں سوچ رہا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک وجہ تو یہ کہ عام لوگوں کے خیال میں یہ حکمرانوں اور حکمران طبقے کے اندر کے جھگڑوں اور کرپشن کے تنازعوں سے تعلق رکھنے والا مسئلہ ہے جس کا عام لوگوں غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس موضوع پر جس زبان میں باتیں کی جاتی ہیں وہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی چنانچہ وہ اسے سنی ان سنی کر دیتے ہی۔ دراصل نچلے اور درمیانی درجے کے لوگوں کے اپنے زندگی اور روزگار کے مسائل اتنے شدید اور مزید شدت اختیار کررہے ہیں کہ وہ پاناما اور سوئیز لیکس کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ سچ پوچھیں تو حکومت اور حکمران طبقہ نہیں چاہتا کہ عام لوگ ان کے قیمتی مسائل کے اندر دخل دینے کے قابل ہو ں۔ عام لوگ اگر حکمران طبقے کے مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کرلیں گے تو وہ حکمران طبقے کے مسائل نہیں رہیں گے عام لوگوں کی تنقید اور تجزیہ کی زد میں آجائیں گے۔’’پاناما لیکس‘‘ کے علاوہ حکمران طبقے کے اور بھی بہت مسائل ہیں جو سرکاری زبان و بیان اور انگریزی زبان کے تقاضوں سے نکل کر عام لوگوں کی سمجھ نہیں آسکتے۔ معلوم نہیں کبھی کسی قومی ادارے نے یہ معلوم کرنے کے لئے کوئی سروے کیا ہے یا نہیں کہ کسی قوم یا ملک کی ’’سالانہ پیداوار‘‘ کیا ہوتی ہے؟ اپنے ملک میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد کیسے معلوم کی جاسکتی ہے۔ غربت کی آخری لکیر کیا ہوتی ہے اور اس سے نیچے گر جانے والے لوگوں کو انسان کہا جاسکتا ہے یا نہیں اور اس میں ان کا اپنا قصور کتنا ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں شاعر امجد اسلام امجد نے ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کارل مارکس سے بہت پہلے ہمارے ایک ممتاز اردو شاعر میر تقی میر نے سوشلزم کی بات کی تھی۔ میر تقی میر کا شعر تھا کہ؎شریف زادوں سے دلی کے مت ملا کر میرؔکہ ہم غریب ہوئے ہیں ان ہی کی دولت سےیہاں شاعر نے لفظ ’’بدولت‘‘ کو ’’دولت سے‘ ‘میں تبدیل کر کے بتایا ہے کہ غریبوں کی تعداد اور غربت میں اضافہ کر کے ہی امیر لوگ اپنی امارت میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں۔ ایسی باتیں ہمارے سیاسی بیانات اور تقریروں میں نہیں آتیں چنانچہ عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں اور حالات پر اثر انداز بھی نہیں ہوسکتیں چنانچہ راوی چین لکھتا ہے کسی سیانے نے کہا تھا کہ انسان کو قوت گویائی ان کا ما فی الضمیر چھپانے کے لئے دی گئی ہے۔ یہ شریف زادے دلی کے علاوہ کسی بھی غریب ملک کے حکمرانوں میں ہوسکتے ہیں۔

.
تازہ ترین