• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی برس سے امن دشمن وطن عزیز میں فوجی اداروں، پولیس مراکز، اسکولوں، یونیورسٹیوں، مسجدوں، خانقاہوں، بازاروں، پارکوں غرضیکہ اکثر بڑے شہروں کی اہم جگہوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بھرپور وار سے بظاہر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ کسی انتقامی کارروائی کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ مگر اب گزشتہ چند روز سے سارا ملک دہشت گردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ 5دنوں میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کی 9کارروائیاں ہوئیں جن میں 100سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں اور سیکڑوں زخمی۔ گزشتہ شب دہشت گردی کی سب سے زیادہ خطرناک اور افسوسناک کارروائی سہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر خود کش دھماکہ کی صورت میں ہوئی۔ جس میں اب تک 83زائرین کی شہادت اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں فوجی قافلے پر حملہ ہوا جس میں کیپٹن سمیت 3فوجی اہلکار شہید ہو گئے پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین پر حملے میں 4پولیس اہلکار سمیت 5افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ سارے اندوہناک واقعات ملک میں دہشت گردی کی کسی نئی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے درست کہا ہے کہ کسی ایک پاکستانی پر حملہ سارے پاکستان پر حملے کے مترادف ہے۔ آئے روز کی خوفناک دہشت گردی سے پاکستانی بحیثیت قوم مایوس تو نہیں مگر پریشان ضرور ہیں ۔ البتہ گزشتہ روز آرمی چیف نے جو بیانات دیئے ہیں وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ ان کے بدلے ہوئے شدید ترین لب و لہجے سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اداروں نے دہشت گردی کی نئی لہر کے پیچھے چھپی ہوئی منصوبہ بندی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا لیا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ دشمن ایجنسیاں علاقائی امن سے کھیلنا بند کریں۔انہوں نے تو اب کوئی لگی لپٹی نہیں چھوڑی اور کہا کہ دہشت گرد دشمن کے حکم پر افغانستان سے آ کر کارروائیاں کر رہے ہیں کل بھوشن یادیو کرنل رینک کا بھارتی ایجنٹ ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کی تحویل میں ہے اس نے اپنے ویڈیو اعترافات میں تسلیم کیا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ یادیو نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ را کی ہدایات کے مطابق کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کی کی نگرانی کرتا رہا ہےجن کے نتیجے میں پاکستانی شہری بڑی تعداد میں شہید اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔ ان واضح اعترافات و انکشافات کے بعد ہمارے سکیورٹی ادارے، ہماری حکومتیں، ہماری پولیس حتیٰ کہ ساری قوم کو زیادہ چوکس و چوکنا ہو جانا چاہئے تھا اور بھارت کے ان مکروہ منصوبوں، اس کی دہشت گردانہ وارداتوں اور پاکستان کے خلاف اس کے تباہ کن عزائم سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا چاہئے تھا مگر لگتا یوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کچھ بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے اس طرف سے توجہ ہٹنے لگی۔ جہاں تک حکومت، سیکورٹی اداروں اور سیاستدانوں کا تعلق ہے ان کے کندھوں پر اب بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو جائزہ لینا ہو گا کہ کیا آپریشن ضرب عضب اور فوجی عدالتوں کے بارے میں قومی ہم آہنگی میں کوئی فرق تو نہیں آیا۔ فکری سطح پر قوم دہشت گردی کے خلاف جتنی یکسو، یک آواز اور یکجان ہو گی اتنی ہی اس ناسور کی بیخ کنی زیادہ آسان ہو گی۔ حکومت کو اس مرحلے پر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی بھرپور قیادت کرتے ہوئے مختلف الجہات تزویراتی، سفارتی، سیاسی، عسکری اور عوامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات اور ان کی طرف سے پاکستان کے اندر شروع کی گئی پراکسی وارز کا ٹھیک ٹھیک ادراک ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ خطے میں جاری عالمی و علاقائی طاقتوں کی آویزشوں اور ان کی ایماء پر شروع کی گئی پراکسی وارز میں کچھ پاکستانیوں کا مختلف طاقتوں کے لئے استعمال ہونے کا سارا عمل بھی حکومت اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نظر میں ہونا چاہئے۔ 2015میں مکمل قومی یکجہتی اور ہم آہنگی سے وجود میں آنے والا نیشنل ایکشن پلان ایک بہت بڑی کامیابی تھی تاہم فوج نے تو اپنے حصے کا کام آپریشن اور ملٹری کورٹس کی حیثیت سے بخوبی انجام دیا مگر حکومت کی جانب سے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی اکثر شقوں پر عملدرآمد کے بارے میں ایسا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعلق ہے ان کے مابین کوارڈی نیشن کا فقدان ہے۔ ہر طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جو ادارہ نیکٹا کے نام سے قائم کیا گیا تھا، اسے جس طرح نظر انداز کیا گیا اور وہ ہماری قومی و سیاسی تاریخ کی ایک الگ المناک داستان ہے۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے پاک افغان سرحد فوری طور پر بند کر دی گئی ہے اور افغان حکومت کو 76دہشت گردوں کی فہرست دے کر اس سے کہا گیا ہے کہ وہ انہیں گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرے۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر بہت بڑے بم دھماکے کے بعد بڑے پیمانے پر تڑپتی لاشوں اور چیخنے کراہنے زخمیوں کی حالت زار اور سیہون شریف کے ابتر سکیورٹی انتظامات اور ڈاکٹروں و بیڈز سے محروم چھوٹے سے اسپتال کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عالمی و علاقائی سطح پر جو سیاسی و سفارتی اقدامات اٹھانا چاہتی ہے وہ مکمل قومی یکجہتی کے ساتھ اٹھائے نیشنل ایکشن پلان کی ایک ایک شق پر عملدرآمد کرے اور نئی ترمیم کے ساتھ ہر طرح کے دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرے۔ حکومت صرف فاٹا میں نہیں سارے پاکستان میں کومبنگ آپریشن کروائے۔ قوم کو مکمل طور پر اعتماد میں لے کر اسے سمجھائے کہ یہ مختصر نہیں طویل جنگ ہےجسے اس وقت تک نہیں جیتا جا سکتا جب تک کہ قوم کا ایک ایک فرد حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہو گا۔ ماضی میں ہر امتحان میں کامیاب و کامران ہونے والی یہ قوم اپنی حکومت اور فوج کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔ سیاسی و عسکری قیادت میں ملکی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ قوم کو متحرک کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔

.
تازہ ترین