• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل پر اقوام عالم کی بھاری اکثریت کا اتفاق رائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی شکل میں اظہر من الشمس ہے، اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے حالیہ ملاقات میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کیے جن سے دوریاستی حل کے لیے امریکہ کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کے خدشات ابھرے ہیں ۔ بدھ کے روز اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا ’’ میں دو ریاستوں اور ایک ریاست دونوں کا جائزہ لے رہا ہوں، اور دونوں فریق جسے پسند کریں اسی کو میں بھی پسند کروں گا۔میں دونوں صورتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی گزارا کرسکتا ہوں۔‘‘امریکی صدر کی یہ سوچ تنازع فلسطین کے پرامن حل کے امکانات کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ صدر ٹرمپ کے اس رویے نے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نکولے ملادینوف بلکہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے تک کو کھلے اظہار اختلاف پر مجبور کردیا ہے۔ نکی ہیلے نے اسرائیل فلسطین تنازع میں دو ریاستی حل کی مکمل حمایت کرتے ہوئے گزشتہ روز امریکہ کی مستقل پالیسی یوں واضح کی ہے کہ ــ’’ ہم دوریاستی حل ہی کی تائید کرتے ہیں اورکسی بھی شخص کی جانب سے یہ تاثر دینے کی خواہش کہ امریکہ دو ریاستی حل کا حامی نہیں، غلطی ہوگی۔‘‘جبکہ ملادینوف نے سلامتی کونسل میں وضاحت کی ہے کہ ’’ دو ریاستی حل ہی وہ واحد راستہ ہے جو فریقین کے جائز قومی جذبات کی تکمیل کرسکتا ہے۔‘‘صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متنازع پالیسیوں کی بناء پر پوری دنیا اور خود امریکہ میں مسلسل شدید نکتہ چینی کا ہدف بنے ہوئے ہیں تاہم دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ جن تنازعات نے کرہ ارض کو ظلم اور بدامنی کا گڑھ بنا رکھا ہے، انہیں مزید الجھانے کے بجائے ان کے منصفانہ حل کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کریں۔

.
تازہ ترین