• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چلیں مان لیتے ہیں کہ مسئلہ افغانستان ہے اور پاکستان میں بدامنی کی واحد وجہ یہی ہے کہ بھارت اور دیگرپاکستان مخالف طاقتیں اس کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کررہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ فعال سفارت کاری کے ذریعے ان مسائل کو کون حل کرے ؟۔ وہ ضعیف اور شریف سرتاج عزیز جو مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی ناراضگی سے بچنے کے لئے فاٹا سے متعلق اپنی تیار کردہ رپورٹ کا دفاع کرنے کو بھی تیار نہیں یا پھر وہ طارق فاطمی جن کی سوچ میاں صاحب کے ملازم سے کبھی بلند نہیں ہوسکتی۔ خارجہ پالیسی نئے خطوط پر استوار کرنا اور پاکستان کے کیس کو لڑنا جن کے بس کے بات نہیں۔ افغانستان کے خلاف پاکستان کا کیس یہ ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے لیکن افغانستان کا بھی جوابی کیس ہے ۔ وہ الزام لگا رہا ہے اور سالوں سے لگارہے کہ اس کی ریاست سے لڑنے والے افغان طالبان پاکستانی سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔ ملااختر منصور کے کیس کی صورت میں شواہد بھی اس کے ہاتھ آگئے ہیں ۔ افغانستان کی شکایات کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے متعلقہ سیکورٹی اداروں کے مابین کوآرڈینیشن ہو اور ان کو اس رخ پر گامزن کیا جائے کہ افغانستان جیسے ممالک کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اب کیا یہ کام سرتاج عزیز صاحب کرسکتے ہیں ؟۔ ہر گز نہیں کیوں کہ وہ ان اداروں کو ناراض کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ پھر کیا یہ کام طارق فاطمی صاحب کرسکتے ہیں ؟۔ یہاں بھی جواب نفی میں ہے کیونکہ ان کا آدھے سے زیادہ خاندان امریکی شہری ہے اور ان پر کوئی بھی ادارہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ پھر کیا یہ کام وہ وزیردفاع اور وزیر داخلہ کرسکتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو تک کرنا گوارا نہیں کرتے ۔ نہیں ہر گز نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یا ام المسائل ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں اس کا نمبر دسواں بھی نہیں ۔ وہ اس مسئلے کو ترجیح سمجھتے تو سی پیک کے منصوبے سے ان علاقوں کو مستفید کراتے جو غربت اور پسماندگی کی وجہ سے دہشت گردی اور پراکسی وارز کا گڑھ بنتے ہیں لیکن موجودہ حکمرانوں نے اسے اپنے اپنے حلقوں میں کھینچ کھینچ کر محروم علاقوں کی محرومیوں کو مزید بڑھا دیا۔ بارڈر مینجمنٹ اور فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کے لئے تو حکومت چندسو ارب روپے دستیاب نہیں کرسکی لیکن موٹرویز اور میڑوز پر کھربوں خرچ کررہی ہے ۔ ان کی ترجیح حکومت بچانا اور اگلا انتخاب جیتنا ہے جبکہ عمران خان اینڈکمپنی کی ترجیح حکومت گرانا اور اگلا انتخاب جیتنا ہے ۔ گزشتہ چند ماہ کی کارگزاری پر نظر ڈال لیجئے کہ حکومت کی کتنی صلاحیتیں پاناما کیس کے دفاع پر اور کتنی انتہاپسندی یا دہشت گردی کے روک تھام پر خرچ ہوئی ہیں ۔ اسی طرح حساب لگا لیجئے کہ عمران خان اور سراج الحق نے کتنا وقت پاناما اور اس سے متعلق ڈراموں پر صرف کیا ہے اور کتنا وقت اس ام المسائل کو دیا ہے ۔ ہم میڈیا والے ذرا اپنا حساب لگالیں کہ کتنا وقت ہم نے پاناما پر صرف کیا ہے اور کتنا پاکستان کے اس سب سے بڑے مسئلے اور اس سے جڑے ایشوز پر صرف کیا ہے ۔ جو کچھ ہورہا ہے ، ہمارے اعمال اور بے حسی کے منطقی نتائج کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی ادارہ یا بندہ اٹھ کر ایک ڈگڈگی بجا لیتا ہے اور پھر ہم سب سوچے سمجھے بغیر اسے بجانے لگ جاتے ہیں۔ کیا نیکٹا کی فعالیت کی وجہ بھی افغانستان ہے ؟ کیا فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام میں بھی ’’را‘‘ نے راستہ روکا ہوا ہے ۔ کیا مدارس کے نظام کی اصلاح کی راہ میں امریکہ رکاوٹ ہے ؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے دبائو ڈالا تھا کہ سی پیک کا روٹ اور رخ تبدیل کرکے وسطیٰ پنجاب میں وزیراعظم اور وزراء کے حلقوں کی طرف موڑ دیا جائے؟ کیا افغانستان اور ہندوستان نے سازش کرکے حکومت کو مجبور کیا تھا کہ وہ ایسے شخص کو کے پی کا گورنربنا کر قبائلی علاقوں کا چیف ایگزیکٹیو بنادے کہ جن کی گورنر شپ کو ان کی جگہ ان کے بیٹے چلارہے ہوں ۔ بلاشبہ تحریک طالبان ، جماعت الاحرار اور داعش کی قیادت افغانستان میں بیٹھی ہے ۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد اب تربیت کے مراکز بھی وہاں منتقل ہوئے ہیں اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ موجودہ کاروائیوں میں سے بیشتر کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوتی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سوچ کہ ایک بندہ جنت کی طلب میں اپنے جسم سے بم باندھ کر انسانوں کو اٹھانے پر آمادہ ہوتا ہے ، کہاں پیدا ہوتی ہے ۔ اس سوچ کے فکری مراکز کہاں پر ہیں؟ ۔ کیا اس بیانیہ کے تخلیق کار اور داعیان افغانستان میں ہیں یا پاکستان میں ؟۔ آج فیس بک، ٹویٹر اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع پر القاعدہ، طالبان اور داعش وغیرہ کا تیار کردہ وہ تمام مواد دستیاب ہے جو کسی انسان کو اس راہ پر راغب کرنے کے لئے ضروری ہے ۔ اس کا تدارک انوشہ رحمان اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے یا پھر کسی اور ملک کی ؟۔ہم جیسے ایروں غیروں کی نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف سے لے کر جنرل کیانی تک اور جنرل راحیل شریف سے لے کر جنرل قمر باجوہ تک ، سب ذمہ داران اس رائے کا اظہار بار بار کرچکے ہیں کہ افغانستان کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی ہے اور یہ کہ افغانستان کی بدامنی سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ افغانستان بڑی تیزی کے ساتھ ایک نئے اور بھیانک انتشار کی طرف جارہا ہے ۔ گذشتہ سالوں میں ہمارے خطے سے عسکریت پسند مشرق وسطی منتقل ہوگئے تھے ۔ اب جوں جوں ان کے گرد گھیرا تنگ ہوگا تو وہ واپس ہماری طرف آئیں گے ۔ ماضی میں صرف ایک طرح کے عسکریت پسند تھے لیکن اب جواب میںشام جانے والے افغانستان اور پاکستان کے وہ عسکریت پسند بھی واپس لوٹیں گے جو طالبان اور داعش کے مخالف ہیں ۔ نئی ابھرنے والی انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اب کی بار لسانی اور علاقائی رنگ بھی شامل ہوسکتا ہے کیونکہ گذشتہ چند سالوں کے دوران حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے محروم علاقوں کی محرومیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ پاکستان مخالف ایجنسیاں یہ بھی کوشش کررہی ہیں کہ مذہبی اور لسانی یا علاقائی انتہاپسندوں اور عسکریت پسندوں کے مابین پاکستانی ریاست کے خلاف اشتراک عمل کروادیں ۔ ان چیلنجز کے مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی ریاستی ادارے، سیاستدان اور میڈیا اس ایشو کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھیں ۔ ان نئے چیلنجز کا مقابلہ بھڑکیں مارنے سے نہیں ہوسکتا۔ بچائو کا واحد راستہ یہ ہے کہ مذہب ، ریاست ، خارجہ پالیسی ، قومی سلامتی اور سول ملٹری تعلقات سے متعلق نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بیانیہ سامنے لایا جائے ۔ یہ بیانیہ سول ملٹری مکالمے اور پھر مختلف طبقات کی سطح پر کھلے مباحثے کے ذریعے ہی تشکیل پاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کفر، ارتداد اور غداری کے فتووں کی اس بھرمار میں وہ مکالمہ کیسے ہو؟۔ وہ مکالمہ پہلے اگر مشکل تھا تو اب ناممکن بنادیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں نوازشریف اور جنرل قمر باجوہ اس مکالمے کے لئے ماحول کو سازگار بناسکتے ہیں ؟۔ اگر کرسکے تو ایک پرامن اور خوشحال پاکستان ہمارا مقدر ہے کیونکہ اس قوم میں ہر طرح کے چینلجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ایسا نہیں کرسکے اور ہم فرسودہ تصورات کے ساتھ نئے چیلنجز کا مقابلہ کرتے رہے تو پھرخاکم بدہن یہ ملک اسی طرح دہشتستان بنا رہے گا۔

.
تازہ ترین