• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صاحبو کیا وقت آگیا ہے۔ پورا دیس آسیب زدہ لگ رہا ہے۔ خوف اور موت کا شور گلی گلی ہے۔ اب خوف بھی نامعلوم کا ہے۔ ہمارے عہد کے ایک اہم کردار کا نام اب ’’نامعلوم‘‘ ہے۔ لٹنے والا بھی نامعلوم اور شکایت کرنے والا بھی اعلیٰ سرکاری ہرکاروں کو بتانے سے قاصر کہ وہ کیا بتائے کہ جرم ثابت ہوسکے۔ ایک عدالت عوام کی ہے جو تمام مقدمےسنتی ہے۔ مگر فیصلہ دینے کا اختیار اس کے پاس نہیں۔ عوام کی عدالت کو جمہوریت کی روح کہا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں جمہوریت، تبدیلی اور ترقی بتانے کے لئے مشہور ہے۔ مگر حقیقت حال ایسا دکھانے سے خفت زدہ ہے۔ دنیا بھر میں نئی تبدیلیوں کی ہوا سی چل رہی ہے۔ کیا پہ تبدیلیاں کسی انقلاب کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ یہ تمام تر تبدیلیاں افراد کی طرف سے ہیں۔ ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ہمسائے کی پہچان دنیا کی بڑی جمہوریت کے تخت کے طور پر ہوتی ہے۔ مگر ان کے ہاں ہی جمہوریت کو تختہ بنایا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام کا ردعمل تمام دنیا کے سامنے ہے۔ مگر کیا کریں، جمہوریت ہی ان سے انتقام لینے پر تلی ہے۔ کشمیری بے بسی اور بے چارگی کے باوجود انقلاب نہیں فقط تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو ان کی عزت نفس محفوظ رکھ سکے مگر جمہوریت کا دیوتا ان کی ریت کو اچھی سی روایات میں بدلنے کو تیار نہیں۔
دنیا کی ایک اور انوکھی سی جمہوریت کا چہرہ آجکل ہمارے دوست، مہربان اور مشکل کشا ملک امریکہ میں نظر آرہا ہے۔ کیا زمانہ تھا۔ امریکہ ظالم بھی تھا اور مظلوموں کا طرف دار بھی۔ انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والا اور اپنی فوج اوراپنے کاروبار کے لئے دنیا بھر میں جنگ کو ہوا دینے والا مگر جو کوئی بھی ان کے ملک میں آکر پناہ مانگتا وہ اس کو کبھی بھی مایوس نہ کرتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا بھر میں پناہ دینے والوں کی جنت بنتا گیا۔ اس جنت کی حقیقت اب نظر آرہی ہے۔ جمہوریت کا ڈھول بے سرا سا لگ رہا ہے۔ جمہوریت اگرچہ سونا ہے مگر اس میں ملاوٹ ضروری ہے۔ اس کھوٹ نے ہی امریکہ میں سر پھرے لوگوں کو حکمرانی کا موقع دیا۔ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ بیشتر امریکی عوام کے لئے قابل قبول ہی نہیں ایک اچھا انتخاب ہے۔ اب جمہوریت بھی انسانی حقوق کی بات کرتی ہے۔ بنیادی حقوق کا نظریہ باطل قرار پایا۔ لوگ ٹرمپ کے خلاف جلسے جلوس نکال رہے ہیں ان کو سمجھ نہیں۔
پاکستان میں جمہوری نظام کے لئے عوام مسلسل قربانی دیتے آرہے ہیں۔ مگر قربانی کا فلسفہ عوام کو مزید خوار اور خراب کررہا ہے۔ اس وقت عوام غیر محفوظ اور سرکار جمہوریت کے کارن مضبوط اور محفوظ ہے۔ ملک بھر میں نامعلوم طاقتوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ ان نامعلوم طاقتوں کو ہمت اور حوصلہ ہمارا غیر محفوظ جمہوری نظام دے رہا ہے۔ ملک کے تعلیمی نظام کو دیکھ لیں سیاست دان جمہوری نظام میں داخلے کے لئے تعلیم اور قابلیت کو نہیں مایا کو استعمال کرتے ہیں وہ اسمبلی میں براجمان ہو کر عوام کو صبر اور شکر کا بھاشن دے سکتے ہیں یا امریکہ سے گلہ تو اب دلدار نہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں دہشت گردی کا جو سلسلہ شروع ہے اس پر سرکاری حلقوں کا ردعمل بھی کچھ نہ معلوم سا ہے۔ اگرچہ عوام میں خوف کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔ مگر ہمارا سارا میڈیا اس دہشت زدہ دور میں بھی پاناما کے فریقین کی داستان امیر حمزہ کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے۔ اور تو اور حکومتی اشرافیہ کا کردار کمال کا ہے۔ پاناما کا مقدمہ افراد کے درمیان ہے ابھی تک سرکار فریق مقدمہ نہیں بنی۔ مگر سرکار کے لوگ مقدمہ کے نہ صرف فریق ہیں بلکہ وہ پاناما مقدمے کے نامعلوم لوگوں کی طرفداری کرتے نظر آتے ہیں اور یہ ایسی بے حسی کا عالم ہے۔سرکار کے لوگ تو مجھے بہت ہی اچھے ایکٹر لگے ان میں سے اکثر لوگ سابقہ حکمرانوں کی ناک کا بال بھی رہے۔ دانیال عزیز چند سال پہلے تک سابقہ صدر جنرل مشرف کی جمہوری نظام کے سادھو سنت تھے وہ ایک ٹی وی پروگرام میں ہمارے ماہر معاشیات اور اقتصادیات کے لئے و ہ فرمودات اگل رہے تھے کہ اس پروگرام میں شریک بھی خوفزدہ اور خفت زدہ سے نظر آرہے تھے۔ اس دفعہ کے مکالمے شاید دوسرے مصنف کے ہیں اور لگتا ہے کہ پیشکش بھی کسی دوسرے ادارے کی ہے۔
ملک عزیز میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کسی بھی طور اچھا نظر نہیں آتا۔ ایک طرف 2018 تک لوگوں کو انقلابی تبدیلیوں کی نوید سنائی جارہی ہے۔سی پیک منصوبے ملک کی قسمت بدلنے کے لئے شروع ہو چکے ہیں۔سی پیک منصوبوں کے فوکل پرسن اور کار سرکار کے عقل کل رکھنے والے وزیر سی پیک کے بارے میں جانتے بہت ہیں مگر بتاتے نظر نہیں آتے ان کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو کسی کی بھی نظر لگ سکتی ہے۔ مگر ان سے التماس ہے کہ نظر سے بچانے کے لئے نظر اتارنی ضرور ہوتی ہے۔ ویسے کبھی کبھی اپنی نظر بھی لگ جاتی ہے۔
اس وقت لگتا یوں ہے کہ سرکار کو کسی کی نظر لگ سی گئی ہے یا وہ کسی کی نظروں میں آگئی ہے اس کے لئے 2018 کا انتظار اور نئے انتخابات کی بات سے حالات بدل نہیں سکتے۔ ملکی مفاد میں قومی انتشار سے بچنا بہت ضروری ہے اور ایسے فیصلے قبول کرنا ہونگے جو ملک کے اداروں کو مضبوط کرسکیں اور ملکی ادارے افراد کے تابع نہ ہوں وہ قانون کو مانتے ہوں اور انصاف کے لئے قربانی کے فلسفے پر عمل کرسکتے ہوں۔ یہ وقت فیصلہ کا ہے۔ پاناما کا مقدمہ جمہوریت کو کمزور ہی نہیں بے بس بھی کرسکتا ہے۔ قومی سرکار کا وجود اور انصاف کا ظہور ہی نامعلوم دشمنوں کی سرکوبی کرسکتا ہے۔


.
تازہ ترین