• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی ہندو برادری کو ’’ہندو میرج بل مجریہ 2017‘‘ کی متفقہ منظوری کی صورت میں ایک ایسا پرسنل لا مل گیا ہے جس کے ذریعے شادیوں اور علیحدگیوں کی باضابطہ رجسٹریشن ہوسکے گی اور دولہا دلہن کے لئے کم از کم 18سال کی عمر کے تعین کے باعث کئی ایسے مسائل کے حل میں مدد ملے گی جن سے ہندو برادری، خاص طور پر خواتین میں احساس تحفظ بڑھے گا۔ ممتاز پارلیمنٹیرین ڈاکٹر رمیش کمار کے مطابق قبل ازیں شادی شدہ ہندو خواتین کے لئے بعض مواقع پر یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا تھا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں۔ مذکورہ بل 26ستمبر 2015 کو قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور خیرپختونخوا میں لاگو ہونے والا یہ پہلا ہندو پرسنل لا ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ پہلے ہی ہندو میرج لا مدوّن کرچکا ہے۔ مسودہ قانون کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مذکورہ قانون کے ذریعے مسلمانوں کے نکاح نامے کی طرز پر شادی کی باقاعدہ دستاویز تیار کرکے اس پر پنڈت دستخط کریں گے اور متعلقہ سرکاری محکمے میں اس کا اندراج ہوگا۔ مذکورہ بل کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں منظوری کے وقت سے ہندو اور مسلم اکابرین کے بعض تحفظات سامنے آتے رہے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ جب یہ بات پوری طرح ثابت اور یقینی ہوجائے کہ کوئی شخص کسی جبر کے بغیر دائرہ اسلام میں آنا چاہتا ہے تو اس پر عمر کی حد لاگو نہیں کی جاسکتی۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی کی درخواست تبدیلی مذہب کی درخواست سے پہلے دائر ہونی چاہئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نیا بل ان تحفظات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہوگا۔ تاہم بعدازاں بھی قانون کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش بہرطور موجود رہے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندو خواتین کو کئی ایسے حقوق اور تحفظات مل گئے ہیں جن پر مذکورہ قانون کی منظوری سے قبل ابہام کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ اب شادی کی دستاویزی شہادت کی موجودگی میں ان کو کچھ ٹھوس ضمانتیں بھی حاصل ہوگئی ہیں۔

.
تازہ ترین