• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’اک اور ’’پناما‘‘ کا سامنا تھا نواز مجھ کو ‘‘

درندگی کا جواب دو صورتوں میں ہی ممکن ہے عاجزی، اطاعت اور غیر مشروط بندگی و غلامی یا پھر بھرپور درندگی، جو لوگ کچھ عرصہ پہلے تک مذاکرات مذاکرات کھیل رہے تھے وہ دراصل تاریخ کے ’’الماس بوبی ‘‘ تھے یا ان کے اپنے اپنے ایجنڈے تھے ورنہ تاریخ انسانی کا کمزورترین طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ ایسے کھیل میں کوئی بھائی شائی نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس صرف Survivors ہوتے ہیں یا پھر وہ قابل رحم و عبرت Victimsجن کی زندگیاں موت سے بھی بدتر ہوتی ہیں ۔مغلوں سے لیکر عثمانیوں تک اور عباسیوں سے لیکر امویوں بلکہ اس سے بھی پہلے تک یہی کچھ تھا اور رہے گا لیکن مذاکراتیوں کا اپنا ہی شعور ہے اور اپنی ہی دنیا، میں تب بھی محو تکرار تھا کہ دیمک اور کینسر وغیرہ سے مذاکرات نہیں کئے جاتے، ان کا علاج کیا جاتا ہے، چیر پھاڑ کی جاتی ہے جسے مہذب زبان میں سرجری یا آپریشن کیا جاتا ہے ۔ جس کے منہ کو انسانی خون لگ جائے، اس کے خونی پنجے اور جبڑے بیکار اور ناکارہ کرنے پڑتے ہیں ۔غزل کا مصرعہ تو کچھ یوں ہے کہ ’’سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘ لیکن اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ سب کچھ لٹانے سے پہلے ہی ’’اکابرین‘‘ ہوش میں آ گئے لیکن اس کنفیوژن کی وجہ سے جتنا نقصان ہو چکا وہ بھی ناقابل تلافی و معافی ہے۔ سچی بات ہے پہلی بار وزیر اعظم رکھنے کا مزہ آرہا ہے۔ وزیر اعظم نے دہشت گردوں کے خلاف فل سکیل کریک ڈائون کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فوج اور سیکیوریٹی ادارے دشمنوں کو نیست ونابود کر دیں ۔نتیجہ افغانستان میں پاک فوج کی پہلی کامیاب کارروائی کی صورت میں سامنے آیا ۔دہشت گرد کیمپوں پر کاروائی میں ٹریننگ کمپائونڈ تباہ، چار کیمپ تہس نہس، ملک گیر آپریشن میں 100سے زیادہ تخریب کار موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔وزیر اعظم اس یکسوئی اور کلیریٹی پر مبارکباد کے مستحق کہ دہشت گرد اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک، انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔پہلی بار وزیر اعظم کی جارحیت سو فیصد درست ہے اور وہ تاجر یا سیاسی جوڑ توڑ کے ماہرنہیں ....واقعی ایٹمی قوت کے چیف ایگزیکٹو دکھائی دے رہے ہیں تو اس جنگ کی باقی جہتوں پر بھی اسی جرات کے ساتھ غور اور پھر عمل کریں۔مذہب اور ملک کے نام پر انسانوں کو مارنا اور مروانا قدیم ترین اور منافع بخش ترین’’پیشہ‘‘ ہے ۔ سہولت کار کا اوریجن کیا ہے؟اس کے ساتھیوں کا اوریجن کیا ہے ؟خودکش بمبار کا اوریجن کیا نکلا؟تاریخی طور پر قتل وغارت، مار دھاڑ ہی ان کی ٹریڈ بھی ہے، کامرس بھی اور انڈسٹری بھی سو کام مشکل ضرور ہے ناممکن ہرگز نہیں بشرطیکہ جوش کے ساتھ ہوش ایسے چلے جیسے دریا کے ساتھ اس کے دونوں کنارے چلتے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ ’’شہدا کے خون کی پہلی قسط چکا دی ‘‘ سچ ہے لیکن یہ بہت ہی جزوی قسم کا سچ ہے کہ یہ قسط صرف ایک محاذ پر چکائی گئی ہے ۔اصل محاذ پر اب تک مکمل سکوت بلکہ سکوت مرگ طاری ہے اور یہی وہ محاذ ہے جو اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا ورنہ وہی علامتی اساطیری اژدھا جسے کاٹ دیا گیا تو اس کے دونوں کٹے ہوئے حصے دو مکمل اژدھوں میں تبدیل ہو گئے۔ پھر ان دو اژدھوں کو دو، دو حصوں میں کاٹ دیا گیا تو یہ شیطانی عفریت چھ اژدھوں میں تبدیل ہو گیا علی ہذا القیاس۔ بصیرت اور جرات ہے تو وہ زہریلا بیج تلف کرو جو پروان چڑھنے اور درخت بننے کے بعد ہزاروں زہریلے بیجوں کو جنم دیتا ہے اور ہوا و فضا انہیں اس طرح دور دور تک بکھیر دیتی ہے کہ بڑے سے بڑا کھوجی نہ انہیں پوری طرح کھوج سکتا ہے اور سمیٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان کی نرسریاں اور ہیچریاں تو اپنی جگہ، کیبلز پر ایسا ایسا ڈرامہ اور جہالت ہوتی ہے کہ جس کی عقل مفلوج نہ ہو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مذہب کے نام پر کیسے کیسے مکروہ لوگ کیسے کیسے دھندوں میں مصروف ہیں ۔شاخوں کی ٹرمنگ اور تراش خراش سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ الٹا یہ اس آدم خور درخت میں پھیلائو اور گھنائوکا سبب بنے گا، تنے کاٹنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے کہ زخم بھرنے تک ناخن بھی بڑھ چکے ہوں گے سو جڑیں کاٹ کر ان پر تیزاب ڈالنا ہو گا تاکہ اس شجرشیطان کے دوبارہ اٹھنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم تو بن گئے لیکن سچی بات ہے ابھی تک ایک بار بھی صحیح معنوں میں لیڈر اور مدبر بن کر نہیں دکھایا کہ لیڈری اور مدبری ایٹمی دھماکوں اور موٹرویز سے ذرا مختلف کام ہے ۔ یہ ہے تاریخ کا وہ موڑ جس پر وہ خود کو لیڈر، مدبر کے طور پر منوا سکتے ہیں ۔منیر نیازی نے کہا تھا ۔اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاوزیر اعظم کا کیس ملتا جلتا ہےاک اور ’’پناما‘‘ کا سامنا تھا نواز مجھ کومیں اک’’پناما‘‘ کے پار اترا تو میں نے دیکھاوزیر اعظم کیلئے یہ ’’پاناما‘‘ سے بڑا امتحان ہے اس میں سرخرو تو سمجھو تاریخ کی عدالت میں بہرحال سرخرو!


.
تازہ ترین