• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کی فکر انگیز کتاب’’ رموز تخلیق‘‘ میرے سامنے ہے ۔اس کتاب کا موضوع قرآن مجید اور سائنسی علوم میں غوروفکر کرکے جدید سائنس کے چیدہ چیدہ نظریات اور تسلیم شدہ حقائق کی قرآن مجید کے مندرجات میں مطابقت تلاش کرنا ہے اور اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ انسان اس کائنات کے بارے اب تک جو کچھ سمجھ پایا ہے وہ کس حد تک درست اور نا درست ہے اور اللہ کی کتاب ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے۔اس کتاب کے آغاز ہی میں درج ایک عبارت سے اس کا مقصد عیاں ہوتا ہے، لکھا ہے :
قرآن عمل کرنے کی کتاب تھی، دعا کی کتاب بنا دیا۔
سمجھنے کی کتاب تھی، صرف پڑھنے پر اکتفا کیا۔
زندوں کا دستور تھا، مردوں کا منشور بنا دیا۔
علم کی کتاب تھی ،اسے لاعلم ہاتھوں میں تھما دیا۔
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی، صرف مدرسوں میں نصاب بنا دیا۔
مردہ قوم کو زندہ کرنے ا ٓ ئی تھی، مردوں کو بخشوانے پر لگا دیا۔
اے مسلمانو!یہ تم نے کیا کیا؟
یہ رموز تخلیق کا دوسرا ایڈیشن ہے جس میں گزشتہ چار پانچ برسوں میں چند ایک مضامین مثلاً تخلیق آدم اور واقعہ معراج کے حوالے سے ہونے و الی پیش رفت کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک نہایت دلچسپ باب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے چیدہ چیدہ مخفی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے اور اپنی روحانی وارداتوں کا کچھ تذکرہ کیا ہے جو کہ قاری کے لئے نہ صرف دلچسپی کا سامان ہو گا بلکہ اس سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی تعمیر اور نشوونما کے پیچھے کارفرما محرکات اور عوامل کا کچھ اندازہ بھی ہو سکے گا اور بعض مضامین کے ورود کا پس منظر جاننے کا موقع بھی ملے گا۔ یہ عاجز امید کرتا ہے کہ اس سے قاری کو اس کتاب کے مضامین کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ڈاکٹر سیال صاحب ماہر امراض قلب ہیں لیکن ان کی اردو اور انگریزی کتب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان کا اپنا قلب ماشااللہ نور معرفت سے منور ہے ان کی روحانی وارداتیں تصدیق کرتی ہیں کہ موت اور زندگی کے درمیان محض ایک پردہ حائل ہے اور روحانی دنیا ایک حقیقت ہے مگر صاحبان نظر کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اس سے قبل اپنی کتاب''Faith in the Unseen'' میں اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی کہ قرآن کریم کے چیدہ چیدہ مضامین کو سائنس کی روشنی میں واضح کیا جائے اور پھر سائنس پر قرآن پاک کے تفوق کو ثابت کیا جائے۔اس ضمن میں نفس مضمون کی تفہیم و تشریح کے لئے جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے دیئے گئے اور د لیل و ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی گئیں۔اس کے لئے سائنس کے بعض انتہائی پیچیدہ نظریات اور گہری تحقیقات کو قرآن مجید کے متن کی روشنی میں پرکھا گیا اور کلام پاک کی وسعت علمی اور سائنس کی تنگ دامانی کا بچشم بصیرت مشاہدہ کیا گیا اور پھر اہل علم اور سائنس دان حضرات کو اس الہامی کتاب سے استفادہ کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ دعوت فکر دی گئی بلکہ اس ضمن میں ان کی رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
’’اس طرح کا کوئی کام کرنا میرے لئے ایک چیلنج سے کم نہ تھا اور اس کے لئے میں نے خود کو تین سال تک دنیا سے قطعی طور پر الگ کئے رکھا۔ یہ وقت میں نے اپنے دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بند ہو کر گزارا، صرف نماز کے لئے اپنے ہسپتال میں قائم مسجد تک جاتا ۔جب انسان کے دل میں طلب او رتڑپ ہو تو باری تعالیٰ کی طرف سے یقیناً رہنمائی ملتی ہے، اور ایسا ہی ہوتا رہا ۔ایک کے بعد ایک مضمون کھل کر سامنے آتا گیا اور میں لکھتا چلا گیا۔ یقیناً اس میں بعض سائنسی جرائد نے بھی میری معاونت کی لیکن اس ذات کی رہنمائی کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔میرے لکھنے کا انداز اگر میں کہوں کہ قطعی طور پر میرا اپنا نہیں تو یہ بات حقیقت کے زیادہ قریب ہو گی۔بے شمار حالات اور واقعات کے تناظر میں ایک خیال دل میں جاگزیں ہوتا اور پھر قلم فی الفور چلنے لگتا۔اس طرح آہستہ آہستہ ''Faith in the Unseen''ترتیب پاتی گئی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب ان شخصیات میں شامل ہیں جن کو دنیا بھر میں پانچ سو بہترین سائنس دانوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے نامزد کیا گیا۔
’’رموز تخلیق ‘‘ اس اعتبار سے بڑی اہم اور وقیع ہے کہ اس میں انہوں نے قرآن حکیم کو آج کے دور کے سائنسی نظریات کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور مسلم امہ کے مفکرین کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت کو آج کے سائنسی انکشافات کے تناظر میں دیکھیں۔آج بھی تخلیق کائنات کا عمل جاری و ساری ہے۔ہماری کائنات ہر سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔کائنات کی ان محیر العقول وسعتوں میں ہم محض ایک تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے بلکہ جدید اور اہم سائنسی انکشافات کو ہم قرآن کی روشنی میں پرکھ کر اپنے لئے ایک سمت کا تعین کر سکتے ہیں ، قرآن جو روشنی اور حکمت کا سرچشمہ ہے ہمہ وقت ہماری رہنمائی کر سکتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ان میں ’’قرآن اور فلسفہ کائنات ‘‘ ،’’واقعہ معراج ‘‘،’’قرآن اور تخلیق آدم‘‘ جیسے اہم اورادق موضوعات سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اپنے وسیع مطالعے کی بدولت قارئین کو انتہائی اہم معلومات فراہم کی ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے جدید دور میں کئی سائنسی انکشافات ایسے ہیں جن کی وضاحت قرآن کی تعلیمات و معلومات کی روشنی میں ضروری ہو گئی ہے، تاکہ یہ حقیقت دور جدید کے سائنس دانوں پر واضح ہو جائے کہ آج وہ جن حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں، کتاب الٰہی چودہ سو برس پہلے ان کا بڑی صراحت سے اظہار کر چکی ہے ۔مثال کے طور پر سائنس دان آج اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان مستقبل میں کائنات کے مختلف طبقات کے درمیان راستے بنا لے گا، مگر سورۃ المعارج کی تیسری اور چوتھی آیات کریمہ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ خدا ان راستوں کا مالک ہے جو روحوں اور فرشتوں کے چڑھنے اور پھلانگنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔پس خداوند نے فرشتوں کے لئے وہ ر استے پہلے سے بنا دیئے ہیں ۔ سائنس دان جن ورم ہولز "Worm holes"کی موجودگی کی بات آج کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا حوالہ چودہ سو برس پہلے دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے واقعہ معراج کی صراحت کی کوشش آج کے سائنسی نظریات کی روشنی میں کی ہے۔ انہوںنے بتایا ہے کہ سورۃ الفاطر میں فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں، شاید اس سے مراد فرشتگان کی قوت پرواز اور ان کی رفتار ہے ۔اس طرح انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی پرواز کی رفتار بھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے ۔جو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ مختلف طبقات کے درمیان راستوں "Worm holes"سے ہوتے ہوئے سرور کائنات حضرت محمدﷺکوآسمانوں پر لے گئے۔الغرض یہ تصنیف ایسی معلومات اور انکشافات سے پر ہے جس سے قارئین کو ایک نئی بصیرت حاصل ہوتی ہے اور ان پر فکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے آغاز میں ’’انتباہ‘‘ کے عنوان سے چند جملے رقم کئے ہیں جو نہایت اہم ہیں ۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ قرآن حکیم جس مقصد کے لئے نازل ہوا تھا امت مسلمہ نے آج اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔اگر قرآن کو سمجھ کر پڑھا جاتا اور اس کے کلمات پر اور آیات پر غور کیا جاتا اور عمل کیا جاتا تو امت مسلمہ آج جس قعرمذلت میں گری پڑی دکھائی دیتی ہے وہ کبھی نہ گرتی اور سر اٹھا کر دوسری ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلتی، بلکہ ان کی رہنمائی کرتی۔میرے خیال میں وطن عزیز بلکہ پوری امت مسلمہ میں ایسی کتاب شاید ہی لکھی گئی ہو جس میں نہایت اہم موضوعات پر قرآن حکیم کی روشنی میں اظہار خیال کیا گیا ہو۔کتاب کی زبان نہایت شستہ اور جامع ہے اور نہایت مشکل خیالات کو سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر کوئی اس سے استفادہ کر سکے ۔ اس کتاب کی اشاعت یقیناً ہماری معلومات میں اضافہ کا باعث بنے گی اور نئی سوچوں کے در کھولے گی۔



.
تازہ ترین