• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کی حالیہ لہر نے ہم پر لازم کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اپنی حکمت عملی کا سنجیدگی کے ساتھ ازسر نو جائزہ لیں اور اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے ۔ یہ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ سیشن بھی ہو سکتا ہے تاکہ منتخب ارکان کھل کر بات کر سکیں ۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر نے نہ صرف پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے تو ہم غلطی پر تھے ۔ صرف 5 دنوں میں دہشت گردی کی 9 کارروائیاں ہوئی ہیں ، جن میں تقریباً 120 بے گناہ افراد شہید ہو گئے ہیں ۔ ان شہداء میں خواتین ، بچے ، جوان ، بوڑھے اور سیکورٹی اداروں کے اہل کار بھی شامل ہیں ۔ لاہور ، کوئٹہ ، پشاور ، مہمند ایجنسی ، ڈیرہ اسماعیل خان ، آواران اور پھر سیہون میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں ۔ سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر زائرین کو نشانہ بنایا گیا ، جس میں 80 افراد شہید اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ۔ یہ گزشتہ دو تین سالوں میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا ، جس نے صدمات سہنے کی عادی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
جنوری 2015 ء میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اتفاق رائے سے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی ۔ اب ہر طرف سے یہ بات ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو گئی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری سویلین حکومتوں پر ڈالنا نہ صرف آسان ہے بلکہ ایک رواج بھی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس حکومت میں شامل کچھ لوگ مخصوص فرقہ ورانہ سوچ کے حامل انتہا پسندوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کے نکتہ نمبر 15 کے مطابق پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف ’’ زیرو ٹالرینس ‘‘ والا رویہ اختیار نہیں کیا گیا ۔ ان الزامات کی تائید میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں مختلف دلائل بھی پیش کرتی ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ حقائق ایسے ہیں ، جن پر کوئی بات ہی نہیں کرنا ۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں قومی سیاسی قیادت ، دانشوروں ، صحافیوں ، تجزیہ کاروں اور اہل رائے نے جو ’’ بیانیہ ‘‘ اختیار کر رکھا ہے ، اس بیانیہ سے حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا ۔ کچھ لوگوں نے شعوری طور پر یہ بیانیہ اختیار کر رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی رائج بیانیہ ہے ۔ اس سے مختلف بات کرنا بوجوہ مناسب نہیں ہے جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں ، جو لاشعوری طور پر اس رائج بیانیہ کو اختیار کرتے ہیں اور اس بیانیہ کی تائید میں انتہائی احمقانہ دلائل پیش کرتے ہیں ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ یہ بیانیہ تبدیل ہونا چاہئے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہماری غلطیوں پر ہر مرتبہ حمود الرحمن کمیشن جیسے کمیشن قائم کیے جائیں ، جن میں واضح طور پر بنیادی سبب یہ بتایا گیا ہو کہ اہل رائے کا بیانیہ ہی غلط تھا ۔ چند لوگوں کے سوا کوئی حقیقت پسندانہ بات کرتا ہی نہیں تھا اور جو لوگ سچی بات کہتے تھے ، وہ معتوب ٹھہرتے تھے ۔ اس زمانے میں تو شاید سچی بات کہنے والے لوگ اگرچہ اقلیت میں ہوں گے لیکن اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے ۔ آج شاید سچی بات کرنے والی اقلیت کا تناسب اس زمانے کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ آج جو بیانیہ رائج ہے ، وہ نہ صرف ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کا دیا ہوا ہے بلکہ میڈیا کی بہت بڑی طاقت نے اسے پوری شدت کے ساتھ رائج کیا ہے ۔ا س سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے ۔ جب لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں پر ماتم اور بین کر رہے ہوتے ہیں ، اس وقت شاید کچھ لوگوں کو احساس ہوتا ہو کہ وہ جو باتیں کر رہے ہیں ، وہ درست نہیں ہیں بلکہ کسی مجبوری کا نتیجہ ہیں۔
دہشت گردی کے بارے میں کچھ مغالطے دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ پہلا مغالطہ یہ ہے کہ دہشت گردی پاکستان میں امریکہ کے نائن الیون کے بعد شروع ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی پاکستان میں 1980ء کے عشرے کی ابتداء میں بھی شروع ہو گئی تھی اور نائن الیون کے بعد ہونے والی دہشت گردی اس کا تسلسل ہے ۔ نائن الیون سے کچھ عرصہ قبل ’’ طالبائزیشن ‘‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی اور نائن الیون کے بعد ’’نامعلوم‘‘ دہشت گردوں کو شناخت فراہم کر دی گئی کیونکہ یہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی ضرورت تھی ۔ نائن الیون سے پہلے سارے دہشت گرد نامعلوم تھے اور اب بھی نامعلوم دہشت گردوں کی کارروائیاں معلوم دہشت گردوں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں یا شناخت رکھنے والے دہشت گرد ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں ۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ہونے والی منظم دہشت گردی کو عالمی طاقتیں ختم کرنا چاہتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی ان عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ضروری ہے ۔ امریکہ نے دو سال پہلے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ بعض خطوں اور ممالک میں آئندہ دو عشروں تک دہشت گردی اور انتشار کا خاتمہ نہیں ہو گا ۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ یہ صرف رپورٹ نہیں بلکہ آئندہ کی حکمت عملی ہے ۔ اس تناظر میں دہشت گردوں اور پاکستان دشمن قوتوں کے گٹھ جوڑ کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ تیسرا یہ مغالطہ بھی ختم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے کسی کا سیاسی مفاد وابستہ نہیں ہے ۔ یہ مغالطے ختم ہو جائیں تو حالات کا تجزیہ کرنے میں رائج بیانیہ ازخود ختم ہو جائے گا لیکن نیا بیانیہ رائج کرنا بھی آسان نہیں ہے ۔ پتہ نہیں کتنے صدمات اور المیوں کے بعد یہ ممکن ہو گا ۔



.
تازہ ترین