• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1970ء کی دہائی میں برطانیہ کے شہر برسلز جانے کا اتفاق ہوا۔ ہوٹل سے نکل رہا تھا تو ایک پرُانے دوست سے جو پاکستان سے معہ فیملی برطانیہ آگئے تھے، ملاقات ہوگئی۔ اُن دنوں پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ کی بہت قدر ہوتی تھی ۔پورے یورپ میں سوائے سوئٹزرلینڈ کے کہیں بھی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہماری کرنسی یعنی روپے کا بہت مضبوط کرنسیوں میں شمارہوتا تھا صرف جرمن مارک اور سوئٹزرلینڈ کا فرانک ہم سے 15فیصد مہنگا تھا ۔جبکہ فرانس کا فرانک ہم سے 25فیصد کم تھا۔ برطانیہ کا پونڈ صرف 17روپے کا ڈالر 10روپے کے لگ بھگ ہوتا تھا۔وہ بھی پی پی پی کی پہلی حکومت کے وزیر خزانہ کی وجہ سے 50فیصد پاکستان کی تاریخ میں ڈی ویلیو کردیا گیاتھا۔
خیر اب میں اصل مو ضوع کی طرف آتا ہوں ۔ان صاحب سے پوچھا یہاں برطانیہ میں کیا کاروبار کررہے ہو انہوں نے بتایا کہ وہ اولڈ ہائوس چلاتے ہیں، میں نے دریافت یہ کیا کاروبار ہوا ۔بولے آؤ میرے ساتھ وہیں بیٹھ کر کھانا کھائواور گپ شپ بھی رہے گی۔
مجھے تجسس ہوا اس سے پہلے اس کاروبارکا نام نہیں سُنا تھا ۔ انہوں نے بتایا یہ اولڈ ہائوس دراصل بوڑھے لوگوں کی رہائش کا نام ہے یہاں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تواُن کی اولاد ان کی دیکھ بھال کرنے سے کتراتی ہے اور کاؤنٹی میں درخواست دیتی ہے کہ آپ ہمارے والدین کی رہائش کا بندوبست کردیں۔ چونکہ وہ ان بوڑھے، ضعیف والدین یا لاوارث افراد کو ان اولڈ ہائوس میں لاکر ٹھہرا دیتے ہیں اور ان کا کرایہ، خرچہ اگر وہ ادا نہیں کرسکتے تو کاؤنٹی اداکرتی ہے۔ اس کو ہم ہاسٹل کہہ سکتے ہیں اس میں ہر عمر کے افراد اکٹھے الگ الگ کمروں میں رہتے ہیں ۔
یہاں ہم ان کی پوری دیکھ بھال کرتے ہیں ان کے کھانے پینے حتیٰ کہ ہر طرح کے آرام کا خیال رکھاجاتا ہے ۔وقت پر کھانا،دوائی وغیرہ دینا بستر لگانا اگریہ معذورہوں تو ان کے کپڑوں کی تبدیلی حتیٰ کہ اگر نہلانا پڑے تو وہ بھی ہم کرتے ہیں۔یہاں آکر ان کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ مگر خاندان سے دُوری ہوجاتی ہے مگر ہم اور ہمارا اسٹاف ان کو اتنی سہولتیں مہیاکرتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں جو ان کو عمر کے اس حصے میں چھوڑ کرجاتے ہیں بھول جاتے ہیں اوریہاں رہنے والوں سے آہستہ آہستہ مانوس ہوکر اس کو اپنا خاندان اور گھر سمجھنے لگتے ہیں ۔کیونکہ ہر ایک اپنے اپنے خاندانوں سے نکلا ہوتا ہے ۔
اکثر ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں ۔ایک دوسرے سے ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے ۔آپس میں گروپ بھی بن جاتے ہیں ایک دوسرے کو اپنے اپنے خاندانوں کی بے وفائیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں، خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب مہنگائی اور مصروفیت کی وجہ سے ان کے گھر والےاپنی زندگیوں میں مست ہوجاتے ہیں ۔یہ رواج نوجوان جوڑوں میں بہت بڑھتا جارہاہے اور اس وجہ سے اُ س نے کئی اولڈ ہائوس کھول رکھے ہیں ۔میں نے اپنے دوست سے پوچھا جو رشتہ دار ان کو یہاں چھوڑ کر گئے ہیں وہ ان سے ملنے نہیں آتے۔اُس نے سرد آہ بھری اور کہا اگر ملنا ہوتا تو یہاں کیوں چھوڑ کر جاتے ۔وہ تو اپنی اپنی جان چھڑاکر بھول جاتے ہیں البتہ سال میں ایک دن ماں یعنی مدرزڈے منایا جاتا ہے ۔جو ہر سال مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتا ہے۔ نسبتاً بہتر درجے کے خاندانی نوجوان اپنے بچوں کو دادی سے ملانے لے آتے ہیں ساتھ پھول ،مٹھائی یا کوئی تحفہ بھی لاتے ہیں۔ ان بوڑھی مائوں کو اس دن کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور وہ صبح سے نہا دھوکر اپنی اولاد کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہوتی ہیں ۔اس دن اُن کی اصل میں خوشی کا دن ہوتا ہے اور وہ پورے ہفتے اسی بات پر خوش ہوتے ہیں ۔اپنے ہوسٹل کے ساتھیوں کو لائے ہوئے تحائف بھی دکھاتے ہیں ۔اسی طرح سال میں ایک دن فادرز یعنی باپ کا دن تھرڈ سنڈے یعنی جون کےتیسرے اتوار کو منایا جاتا ہے ۔ وہی سب کچھ ہوتا ہے جو ماں کے لئے تھا ۔اب باپ کا نمبرآتا ہے اُس دن وہی کیفیت باپ کی قابل دید ہوتی ہے ایک میلہ سا لگ جاتاہے ۔ہرطرف غبارے ، جھنڈیاں ہم لگادیتے ہیں ۔کچھ افراد ان ماں باپ کو ساتھ لے کر لنچ یا رات کا کھانا ہوٹل جاکر کھا لیتے ہیں ۔ اُن کی خیریت دریافت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔میں نے پوچھا کہ کیا ایسی بھی اولاد ہوتی ہے جو اس مدرزڈے اور فادرزڈے کو بھی ان سے ملنے نہیں آتی؟ اُس نے کہا شروع شروع میں تو اُس دن باقاعدہ آتی ہے بہت کم بے حس اولادیں اُس دن بھی نہیں آتیں توان والدین کی بے بسی اور پریشانی بھی قابل دید ہوتی ہے ۔ہر آنے والے کی آہٹ پر اُن کی آنکھیں دروازوں پر لگی ہوتی ہیں ۔پھر تھک ہار کر وہ مایوسی سے ایک دوسرے کو تسلّی دیتے ہیں پھر چپ چاپ سو جاتے ہیں۔ بعض اوقات اولادیں اور رشتہ دار عام دنوں میں بھی آکر مل جاتے ہیں ۔مگر اُن کی تعداد بہت کم ہے ۔مگر ایک رات بہت یقینی ہے کہ اس اولڈ ہائوس کے افراد آپس میں سگے رشتہ داروں کی طرح تعلقات رکھتے ہیں۔ اگر ان میں کسی کی بھی طبیعت ناساز ہو تو وہ دن رات ایک کرکے تیمارداری کرتے ہیں ۔
اسی طرح کرسمس اور نیو ائیرپر بھی ان سے ملنے آتے ہیں مگر وہ بالکل ایک رسماً ہوتا ہے ۔کوئی خاندانی گرم جوشی نہیں ہوتی مگر مادرڈے اور فادرڈے کی نسبت کم ہی اولادیں ان سے ملنے آتی ہیں۔یہیں پر ہم ان کیلئے کرسمس اور نیو ائیر کے موقع پر بھر پور طریقے سے کیک کاٹنے کی روایت برقرار رکھتے ہیں۔ہماری طرف سے ان کو تحفے تحائف بھی دیئے جاتے ہیں ہم سب ان کو اکیلامحسوس نہیں ہونے دیتے ۔ان کے پسندیدہ پکوان بناکر کھلاتے ہیں گویا ہم ہی اُن کاخاندان ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو پورے ہوسٹل میں سب سوگوار ہو جاتے ہیں ۔ کسی کا بھی دل کھانے وغیرہ میں نہیں لگتا ۔ جس طرح اصلی رشتہ دار سوگوار ہوتے ہیں ہر کسی کے چہرے پر غم نمایاں ہو تا ہے ۔ پھر مرنے والے کے رشتہ دار آکر دفنانے اور کفنانے کا کام کمرشل اداروں کی معرفت کرتے ہیں۔ بہت سے بد بخت کہہ دیتے ہیں کہ ہم جا ب پر گئے ہیں اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے نہیں آسکے ۔ کمیونٹی اوراداروں کے ذریعے لاوارث افراد کی کفالت اوران کے دفنانے کا بندوبست کیاجاتا ہے۔ یہ بے حسی بھی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ یہاں آخری رسومات اور قبر کی جگہ بہت مہنگی ہو چکی ہے تو اس خرچے سے بچنے کے لئے لواحقین پوری کوشش کرتے ہیں ۔ گویا ان کی زندگی
کی خوشیاں جب تک ماں باپ ان کے خرچے اور نخرے اُٹھائیں تو وہ ان کے ساتھ زندگی گزار کر خوش ہوتے ہیں۔ جوں ہی ان کے پاس پیسے ختم ہوں تو وہ ان کو اب کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔
میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہماری نسل اب غیر مسلموں کی رسومات پر چل نکلی ہے ان کی دیکھا دیکھی یہ اولڈ ہاؤس میں والدین کو داخل کرنے کی روایتیں شروع کرنے والی ہے۔ اگرچہ ہمارے مرحوم ایدھی صاحب نے تو اپنا گھر ایدھی ہاؤس بنوا کر اپنا حق ادا کر دیا تھا۔ اگر خدانخواستہ بے راہ روی بڑھی تو یہاں بھی کمرشل پیمانے پر اولڈ ہاؤس بننے شروع ہو جائیں گے۔ نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے ہماری نئی نسل میں بڑی سرایت کر چکا ہے۔ ہمارے بزرگ اب ان نوجوانوں کی رسم میں مداخلت نہیں کرتے ، اس طرح بہت سی رسومات ہمارے ہاں "ان"ہو چکی ہیں۔ ویسے ان ممالک میں ایک درجن سے بھی زائد دیگررسومات ابھی تک ہمارے نوجوانوں تک نہیں پہنچی ہیں۔ وہ بھی جلد پہنچ جائیں گی۔ سوشل میڈیا زندہ باد۔



.
تازہ ترین