• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک فوج کی جانب سے پچھلے دو دنوں میں افغانستان کے حدود میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے واضح طور پر قطعی جائز اسباب کے باوجود افغان حکومت کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا ہے۔ تاہم افغان حکام کی یہ شکایت فی الحقیقت شکوۂ بے جا کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے کیلئے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ ملک میں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردی پر مؤثر کنٹرول کے باوجود افغانستان سے کارروائیاں جاری تھیں۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں واقع دہشت گرد تنظیموں کے کیمپوں سے پاکستان کے اندر پے در پے دہشت گردی کی وارداتیں کرائی جاتی رہیں جن کا سلسلہ ماہ رواں کے وسط میں خاص طور پر بہت بڑھ گیا۔ ان وارداتوں کی ذمہ داری ان تنظیموں نے قبول کی جو افغانستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم ہیں اور اس امر کے ٹھوس شواہد سامنے آچکے ہیں کہ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں انہی سے وابستہ عناصر ملوث ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ماضی میں بھی بار ہا افغان حکام سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے حدود میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ حتیٰ کہ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج بھی ڈیڑھ عشروں پر محیط کوششوں کے باوجود نہ افغانستان کے اندر دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئیں اور نہ افغانستان سے پاکستان میں کی جانے والی وارداتوں کو روک سکیں۔ پاکستان نے افغان حکام کو ایسے 76دہشت گردوں کی فہرست بھی فراہم کی جو پاکستان میں ہونے والی وارداتوں میں ملوث ہیں تاہم کابل کی جانب سے اس سمت میں بھی کسی عملی پیش رفت کے آثار نظر نہیں آئے۔ اس تناظر میں جب لاہور میں ہولناک خوں ریزی کے بعد سیہون میں خود کش دھماکہ کیا گیا جس میں بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جاری طویل جنگ میں پہلی بار افغان حدود میں واقع ان ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا جہاں سے یہ کارروائیاں کنٹرول کی جاتی ہیں۔ افغان دفتر خارجہ کے احتجاج کے جواب میں پاکستانی سفیر بالکل درست طور پر یہی موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر واضح کیا کہ پانچ دنوں میں افغان علاقوں سے پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی آٹھ کارروائیوں کے بعد اس بارے میں افغان حکومت کو معلومات فراہم کی گئیں لیکن جب ثابت ہو گیا کہ افغان حکومت اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تو پاکستان کے پاس یہی واحد راستہ تھا کہ وہ خود ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرے جن سے پاکستان ہی نہیں افغانستان کے امن کو بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس موقع پر افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں اور دہشت گردوں کی اس فہرست پر بھی بات ہوئی جو پاکستان نے افغان حکومت کو فراہم کی ہے اور یہ بات نہایت اطمینان بخش ہے کہ افغان فوج کے سربراہ جنرل قدم شاہ شاہیم نے دہشت گردوں کے اس فہرست پر کام کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے ہفتے کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گرودں کی فہرست پاکستان کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی ملی ہے اور ہم اس پر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان نے بھی پاکستان کو دہشت گردوں کی فہرست اور شواہد مہیا کیے ہیں اور پاکستان سے بھی ان دہشت گردوں کے خلاف منصفانہ کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔ افغان آرمی چیف کا یہ موقف یقیناً مثبت اور تعمیری ہے، خطے کے امن و استحکام کے لئے دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کا اتحاد اور تعاون ناگزیر ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کی قیادتیں بہتر مستقبل کیلئے اس سمت میں تیز رفتار پیش رفت کو یقینی بنائیں گی۔

.
تازہ ترین