• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹی وی چینلز میں اب کیا کیا کچھ دکھایا اور سکھایا جا رہا ہے اس کا نہ تو ہماری ریاست کے کسی بھی ذمہ دار کو کوئی اندازہ ہے اور نہ ہی معاشرے کو۔ بلکہ حال ہی میں ایک اہم ٹی وی چینل کے مالک کو میں نے ایک انتہائی فحش تصویر بھیجی جو اُن کے اپنے چینل پر چلائی اور دکھائی گئی جس پر اُن کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ اُن کے چینل پر یہ دکھائی گئی ہو۔ تحقیق کی گئی تو پتا چلا ہاں ایسا ہوا۔ یعنی ٹی وی چینلز ایسے بے لگام ہو چکے کہ جس کی مرضی میں جو آتا ہے وہ دکھا دیتا ہے۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ڈرامہ دکھایا جائے گا جس کا موضوع خواتین کی ہم جنس پرستی ہو۔ گھر گھر پہنچنے والے اس ڈرامے میں lesbain lovers کو دکھایا گیاجو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ اس گندگی اور بے راہ روی کو بُرا نہ جاننے والے کسی شخص کی طرف سے ایک اخبار کے میگزین میں لکھا گیاکہ ایسے تعلق کو ڈرامہ کا حصہ بنانے کو عمومی طور پر سراہا نہیں گیا لیکن معاشرے میں موجود ـ’’دقیانوسی‘‘ سوچ کو ختم کرنے کی یہ ایک کوشش تھی جس کی وہ قدر کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ ایسی گندگی اور بے ہودگی کو عام کرنے والوں کے نزدیک ہم جنس پرستی کو ٹی وی اسکرین کے ذریعے گھر گھر پہنچانا دراصل معاشرے کے ’’stereotypes‘‘ کو توڑکر ’’ترقی پسند اور روشن خیال‘‘ بنانا مقصود ہے۔ پاکستان میں شاید ایک فیصد لوگ بشمول وہ جو اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر کہتے ہیں، ایسی بے ہودگی اور بے شرمی کو پسند نہیں کریں گے لیکن کیا کریں آپ چاہیں یا نہ چاہیں ـ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’روشن خیالی‘‘ کے اس زہر کو گھر گھر پھیلایا جا رہا ہے۔ ڈراموں کے نام پر ایسا ایسا کچھ دکھایا جا رہا ہے جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماضی میں ایسے موضوعات پر ڈرامے بنتے تھے جو معاشرتی اقدار سے مطابقت رکھتے تھے اور جن کا مقصد معاشرتی برائیوںکو ختم کرنا اور اچھائی کو فروغ دینا ہوتا تھا لیکن اب نہ صرف رشتوں کے حرمت بلکہ معاشرتی اور دینی اقدار کو تار تار کیا جا رہا ہے اور دیکھنے والے بہت سے معصوم ذہنوں میں ایسی سوچ پیداکی جا رہی ہے جو ماسوائے تباہی اور گھاٹے کے کچھ نہیں۔ چند دن پہلے کرکٹ میچ کے دوران چلنے والے ایک اشتہار کو دیکھا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیںآیا۔ اشتہار میں جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ایک ساتھ کھیلتے دکھایا گیا ہے ۔ اس اشتہار میں جو کچھ ہے ایسا گھٹیا پن تو یورپ اور امریکا جیسے معاشروں میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن ہمارے ہاں ـروشن خیالی اور جدت پسندی کے نام پر کوئی انوکھا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ایک اور ٹی وی اشتہار میں نیم عریاں خواتین فٹنس کوبہتر کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ چلیں شکر ہے کہ ان اشتہارات پر پیمرا کو بھی اعتراض ہوا جس نے پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA) کو دو دن پہلے نوٹس دیا کہ ان قابل اعتراض اشتہارات کو فوری ایڈٹ کیا جائے۔ویسے کیا ایسوسی ایشن اور ٹی وی چینلز کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ ایسے قابل اعتراض ڈراموں، اشتہارات اور دوسرے مواد کو روکیں۔ ایسوسی ایشن کا کوئی رکن اور ٹی وی چینلز کو چلانے والے بڑے ذمہ داروں میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ جو کچھ ڈراموں اور اشتہارات کے نام پر ہو رہا ہے وہ اُن کے اپنے گھروں میں ہو۔صحافت کو ذمہ دار ہونا چاہیے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ جس کے جی میں جو آیا وہ کر گزرے۔ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹی وی چینلز میں دکھایا جانے والے ہر اشتہار کو پہلے کسی سنسر بورڈ کے ذریعے پاس کیا جائے اور یہی پالیسی ٹی وی ڈراموں کے لیے اپنائی جائے تاکہ ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار کی ریڈ لائنز کو کراس کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ صحافت میں ایڈیٹوریل کنٹرول کی بہت بڑی اہمیت ہے لیکن جو کچھ ہمارے ٹی وی چینلز کر رہے ہیں اور جو وہ دکھا رہے ہیں اُس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ یہ چینلز ہر قسم کے ایڈیٹوریل کنٹرول سے بالا ہیں اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ کسی چینل میں انٹرنل سنسر بورڈ نام کی کوئی شہ نہیں۔ اگر کہیں ایسا اندرونی میکنزم ہے بھی تو اس کی کوئی شنوائی نہیں۔ ایسوسی ایشن اور ٹی وی چینلز کو ان معاملات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ضروری تدابیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ بے حسی جاری رہتی ہے تو پھر میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو ٹی وی چینلز پر مکمل پابندی کے لیے آواز اٹھائوں گا۔ میں ایسی مادر پدر آزاد صحافت کا قائل نہیں جو معاشرےکو سنوارنے کی بجائے بگاڑے۔



.
تازہ ترین