• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردوں نے گزشتہ دنوں ملک بھر میں جو کارروائیاں کی ہیں، ان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کے حوالے سے ہم بہت زیادہ خوش فہمیوں کا شکار تھے۔ اس ہنگامی صورت حال میں بھی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی پر وفاق اور صوبوں کے مابین اتفاق پیدا نہیں ہو رہا۔ سیاسی جماعتیں بھی ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس نیشنل الیکشن پلان کا ازسر نو جائزہ لیا جائے، جو قومی اتفاق رائے سے مرتب کیا گیا تھا۔ 24دسمبر 2014ء کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کا اعلان کیا تھا اور جنوری 2015ء سے اس پلان پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا۔ اس پلان کو دوسال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن یوں محسوس ہو رہا ہے کہ 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے زیادہ تر نکات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ پلان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں سزا یافتہ لوگوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائیگا۔ ان دو سالوں میں سزائے موت پر پابندی ختم ہو گئی اور اس پر عمل درآمد ہوا، جن کے مقدمات دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔ صرف 100دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سال کے دوران دہشت گردی کے مقدمات میں 24ہزار سے زائد لوگ ضمانت پر رہا ہوئے یا بری ہو گئے۔
نیشنل ایکشن پلان کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ دو سال کی مدت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ان عدالتوں کو 275مقدمات سونپے گئے تھے۔ ان میں 161لوگوں کو سزائے موت اور 116کو عمر قید دی گئی۔ صرف 12افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا۔ فوجی عدالتوں کی مدت 7جنوری 2017کو ختم ہو گئی ہے اور ان میں توسیع کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہے۔ ہم بھی فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرتے لیکن اس طرح کے غیر معمولی حالات میں ان کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں اور مسلح گینگز کو بھی ختم کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نکتے پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ نکتہ نمبر 4کے مطابق نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (نیکٹا) کو مضبوط نہیں بنایا گیا۔ نکتہ نمبر 5کے مطابق نفرت، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور رسائل کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکا۔ انتہا پسندوں کا لٹریچر ناصرف تقسیم ہو رہا ہے بلکہ وہ سوشل میڈیا کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح پلان کے نکتہ نمبر 6سے نمبر 11تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کی مالی معاونت کو نہیں روکا جا سکا۔ دہشت گرد گروہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ ایک مضبوط انسداد دہشت گردی فورس قائم نہیں کی جا سکی۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ مدارس کی رجسٹریشن اور ان سے متعلق قانون سازی کا عمل بھی مکمل نہیں ہو سکا اور دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے حوالے سے خبروں کو بھی نہیں روکا جا سکا۔ وفاق کے زیرانتظام علاقوں یعنی فاٹا کے حوالے سے اصلاحات نیشنل ایکشن پلان کا 12واں نکتہ ہے۔ وزیراعظم کی قائم کردہ فاٹا ریفارمز کمیٹی نے اپنی سفارشات 8اگست 2016ء کو وزیراعظم کے حوالے کر دی تھیں اور ان سفارشات پر ناصرف فاٹا کے عوام بلکہ زیادہ تر قومی، سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی متفق ہیں۔ فاٹا اصلاحات نافذ کرنے میں بلاوجہ تاخیر کی جارہی ہے۔ پلان کے نکتہ 13کے مطابق دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورکس کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکا اور نکتہ نمبر 14کے مطابق دہشت گردی کیلئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات نہیں کئے گئے۔پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے نکتہ نمبر 15,16اور 17میں حکمت عملی کی وضاحت کی گئی ہے۔ نکتہ نمبر 15کے مطابق پنجاب میں دہشت گردوں کیلئے ’’زیرو ٹالرینس‘‘ پالیسی ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دیگر تمام صوبے یہ الزام لگاتے رہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف جس طرح آپریشن ہونا چاہئے تھا، ویسا آپریشن نہیں ہوا۔ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انتہا پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ نکتہ نمبر 16میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اس حوالے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کیلئے رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں نے بہت محنت کی اور قربانیاں بھی دیں لیکن سندھ حکومت کا تعاون نہ ہوتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ حکومت سندھ کو آپریشن کی حکمت عملی اور بعض اقدامات پر سخت تحفظات تھے لیکن اس نے سیکورٹی اداروں سے تعاون جاری رکھا۔ پلان کے نکتہ نمبر 17میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مفاہمت کیلئے بلوچستان حکومت کو مکمل بااختیار بنایا جائے گا لیکن یہ مقصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔ سیاسی مفاہمت کی بجائے آپریشن جاری رہا اور علیحدگی پسند تنظیموں نے بلوچستان حکومت سے مذاکرات اس لئے نہیں کئے کہ حکومت بے اختیار ہے۔ نکتہ نمبر 18کے مطابق فرقہ ورانہ دہشت گردی سے بھی نہیں نمٹا جاسکا۔ نکتہ نمبر 19کے مطابق افغان مہاجرین کے معاملات پر جامع پالیسی بنائی گئی، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی اور نکتہ نمبر 20کے تحت کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات نہیں لائی جاسکیں۔
اس جائزے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا حالانکہ عمل درآمد کا جائزہ لینے کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر اپیکس کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی تھیں۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک طویل بحث ہے۔ زیادہ تر کام وفاقی حکومت کو کرنا تھا اور کچھ کام صوبائی حکومتوں کے تھے۔ فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں نے اپنا کام بھرپور انداز میں کیا ہے۔ اس بحث میں الجھے بغیر ہمیں دو سال کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر قابو پانا چاہئے۔ ہمارے پاس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل فتح کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اس نصب العین میں کسی بھی تاخیر کی گنجائش نہیں۔



.
تازہ ترین