• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے بارے میں بہت اچھی خبریں سامنے آ رہی تھیں، اس کا ایک پر امن، لبرل، خوشحالی اور ترقی کی طرف گامزن ملک کا تاثر ابھر کر سامنے آرہا تھا۔ ایک طرف پاکستان سپر لیگ کامیابی کی داستان رقم کر رہی تھی، اس کا فائنل میچ لاہور میں کرانے کا عزم ظاہر کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف کراچی کے سمندر میں دنیا بھر کی بحری افواج مشترکہ مشقیں کر کے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور استعداد کا اعتراف کر رہی تھیں۔ وہیں دنیا بھر کی اہم کمپنیوں کے سربراہان وزیراعظم سے ملاقات کر کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک طرف فچ جیسا ادارہ پاکستانی کی درجہ بندی کو بہتر کرتے ہوئے بی کرنے کا اعلان کر رہا تھا تو دوسری طرف دنیا کی معیشتوں پر نظر رکھنے والا بلوم برگ پاکستان کی اقتصادی صورتحال سے متعلق خوشگوار حیرت کا اظہار کر رہا تھا۔ دنیا کی اہم پیشہ ور فرم پرائس واٹر ہاؤس کوپرز مضبوط معیشت والے 32ممالک کی فہرست میں پاکستان کو 20ویں درجہ دے رہی تھی تو اہم اسٹاک ایکسچینجز پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کو سرمایہ کاری کے لئے دنیا کا بہترین پلیٹ فارم قرار دے رہے تھے۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹریز میں برآمدی معیار کے جدید ترین ہتھیاروں اور آلات کی تیاری کے نئے یونٹ قائم کئے جا رہے تھے تو بکھی پاور پلانٹ جیسے نئے منصوبوں کے فیتے کاٹنے کا عمل بھی تسلسل سے جاری تھا لیکن پھر پاک وطن کو ناپاک نظر لگ گئی۔ چشم زدن میں کایا پلٹ گئی۔ خون کے جو دھبے کئی برساتوں کے بعد دھلے تھے ایک بار پھر آنے والی بہار کو داغدار کر گئے۔ صرف پانچ دن میں دہشت گردی کے 9واقعات میں 110افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ لاہور سے پشاور، مہمند ایجنسی سے آواران اور ڈی آئی خان سے سیہون تک ہر طرف آہ و بکا، سسکیاں، چیخ و پکار پاکستانی قوم کا مقدر بن گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بلکل بجا فرمایا کہ یہ ترقی پسند پاکستان اور اس کے مستقبل پرحملہ ہے، یہ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر براہ راست حملہ ہے لیکن ایسے واقعات سے خوف زدہ ہوں گے اور نہ ہی خود کو تقسیم ہونے دیں گے۔ مسلح افواج کے سپہ سالار نے بھی قوم کو یقین دلایا کہ دشمن کے ناپاک عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے، دہشت گرد جہاں بھی ہوں گے انہیں بے رحمی سے ٹارگٹ کیا جائے گا۔ بلاشبہ سول اور عسکری قیادت نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے ناصرف ملک کے اندر بلکہ سرحد پار بھی ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں سیکورٹی فورسز کو یہ اختیار دیا گیا کہ دہشت گرد اور ملک دشمن جہاں بھی ہوں ان کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے کیوں کہ دہشت گردی کے حالیہ تمام واقعات کی تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر معمولی اقدام کے طور پر افغان سفارتی حکام کو جی ایچ کیو طلب کر کے باور کرا دیا گیا ہے کہ بس بہت ہو چکا، انہیں پاکستان کو مطلوب 76دہشت گردوں کی فہرست بھی تھما دی گئی کہ انہیں پاکستان کے حوالے کر دیں۔ آرمی چیف کی طرف سے افغانستان میں امریکی کمانڈر اور مشیر سلامتی کی طرف سے افغان ہم منصب پر واضح کر دیا گیا ہے کہ اب ایسے نہیں چلے گا۔ موجودہ صورتحال ایک بار پھر سانحہ آرمی پبلک اسکول کی طرح قومی اتحاد کا تقاضا کر رہی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جہاں کچھ عناصر نے لاہور واقعے کے بعد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی وہیں سیہون واقعہ پر بھی نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں ملبہ وفاقی حکومت خصوصاً وفاقی وزارت داخلہ پر ڈالنے کے لئے توانائیاں صرف کی گئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما تو بعض معاملات کی وجہ سے وفاقی وزیر داخلہ سے اس قدر خائف ہیں کہ کہیں پتہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ اس کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتے ہیں۔ خود کش حملہ لاہور میں ہوتا ہے لیکن استعفے کا مطالبہ وفاقی وزیر داخلہ سے کیا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے جن نکات پر عمل درآمد کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے اس کو بھی وفاقی وزارت داخلہ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو دہشت گردوں کی ٹوٹی کمر کے طعنے دے کرمایوسی پھیلاتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں دہشت گردی میں کس حد تک کمی واقع ہوئی۔ انہیں یاد دلا دیتا ہوں کہ سال 2014ء میں دہشت گردی کے 18سو 16واقعات ہوئے تھے، سال 2015ءمیں 11سو 39واقعات جبکہ سال 2016میں 785اور رواں سال 33واقعات ہوئے ہیں۔ یہ آپریشن ضرب عضب کی ہی کامیابی ہے کہ دہشت گردوں کا اب پاکستان کی سرحدوں کے اندر کوئی ٹھکانہ نہیں بچا اور وہ سرحد پار سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقائق کی درستی کیلئے یہ بھی واضح کر دوں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے صرف تین نکات کا کلی طور پر وفاقی وزارت داخلہ سے تعلق ہے جبکہ پانچ نکات ایسے ہیں جن میں وفاقی وزارت داخلہ کے ساتھ دیگر وزارتیں، ادارے یا صوبائی حکومتیں بھی عمل درآمد کے ضمن میں فریق ہیں۔ ان کے علاوہ بارہ نکات کا وفاقی وزارت داخلہ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بارہ نکات براہ راست صوبائی حکومتوں یا دیگر اداروں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں جو تین نکات کلی طور پر وفاقی وزارت داخلہ کی ذمہ داری تھے ان میں پہلا نکتہ دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق تھا جس میں اب تک 161دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ دوسرا نکتہ خصوصی عدالتوں کے قیام کا تھا جس کے تحت 11خصوصی عدالتیں بنائی گئیں اور 190مقدمات ان عدالتوں کو بھیجے گئے۔ وفاقی وزارت داخلہ کی ذمہ داری میں آخری نکتہ دہشت گردوں کا مواصلاتی رابطہ ختم کرنا تھا جس کے تحت اب تک 9کروڑ 83لاکھ موبائل سموں کو بلاک کیا جا چکا ہے۔ بائیو میٹرک کا نظام بھی وضع کیا جا چکا ہے۔ جن پانچ نکات میں صوبائی حکومتیں اور دیگر وزارتیں مشترکہ ذمہ دار تھیں ان میں ایک نکتہ مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔ اس میں صوبائی حکومتیں اور وزارت دفاع مساوی ذمہ دار تھے۔ اب تک 1ہزار 865دہشت گرد ہلاک اور 5ہزار 611گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ دوسرے نکتے میں نیکٹا کو فعال کرنا تھا جس کا بہت شور کیا جاتا ہے حالانکہ اس میں وزارت داخلہ کے ساتھ وزیراعظم سیکرٹریٹ،حکومت پاکستان اور وزارت خزانہ پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نکتے کے تحت 1ارب 86کروڑ روپے کے مطالبے پر اب تک 1ارب 40کروڑ روپے جاری کئے جاچکے ہیں، مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کیلئے پانچ سال کے کرائے پر جگہ لینے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ متعلقہ افسران کی بھرتی کا عمل جاری ہے جبکہ ریکوزیشن پر طلب کئے گئے افسران ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ مشترکہ ذمہ داری کا تیسرا نکتہ کالعدم قرار دی گئی تنظیموں یا گروہوں کے نئے ناموں سے ظہور کو روکنا تھا۔ اس میں صوبائی حکومتیں، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور وزارت دفاع مشترکہ فریق تھے۔ اس کے تحت 66کو کیٹیگرائز کیا گیا جن میں 13وہ بھی شامل ہیں جن پر اقوام متحدہ نے بھی پابندی عائد کی۔ اسی طرح 8ہزار 309افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا جبکہ 2ہزار 52کی نقل و حرکت کو محدود کیا گیا ہے۔ چوتھے نکتے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی مشترکہ ذمہ دار تھیں جنہوں نے انسداد دہشت گردی فورس قائم کرنا تھی۔ اس نکتے کے تحت سب نے پیش رفت کی ہے۔ اسی طرح پانچواں نکتہ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا تھا جس میں وفاقی وزارت داخلہ کے ساتھ سندھ حکومت یکساں ذمہ دار تھی۔ اس نکتے کے تحت دہشت گردی میں 90فیصد کمی واقع ہو چکی، ٹارگٹ کلنگ میں 91فیصد کمی ہوئی، 33ہزار سے زائد غیر قانونی ہتھیار قبضے میں لئے گئے ۔ ان کے علاوہ نفرت انگیز بیانات پر پابندی سے لیکر دہشت گردوں کی مالی معاونت تک دیگر تمام نکات پر عملدرآمد کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں اور مختلف وزارتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں صرف اعتراض کرنے کی بجائے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے ناصرف ہر فریق اپنی ذمہ داری پوری کرے بلکہ وطن دشمنوں کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے قومی اتحاد بھی برقرار رکھا جائے تاکہ پاکستان کے بارے میں پھر سے اچھی خبریں سننے کو ملیں۔



.
تازہ ترین