• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکے بعد دیگرے چار خونیں واقعات نے ملک کو ہلاکر اور قوم کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے میں 90 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ حملے ملک و قوم کے خلاف کسی ’’گریٹ گیم‘‘ کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ملک دشمن قوتوں کو سی پیک منصوبہ اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال ہضم نہیں ہورہی۔ پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ پاکستان کے کل حدود اربعے کا 44فیصد ہے یعنی قریباًنصف پاکستان۔ جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان کی ایک سرحد ایران سے منسلک ہے۔ بلوچستان کے اضلاع گوادر، تربت، پنجگور، چاغی، واشک، کیچ اور مکران کے علاقوں میں زندگی کا زیادہ تر دارو مدار ایرانی بارڈر پر ہے۔ یہاں ایرانی منڈیوں سے غذائی اجناس آتی ہیں۔ بلوچستان کی دوسری سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ ژوب، قلعہ عبداللہ پشین، نوشکی اور چاغی کے اضلاع افغانستان سے منسلک ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والے بآسانی سرحدکے اُس پار افغانستان جا سکتے ہیں تو اسی طرح افغانی اِس طرف آ سکتے ہیں۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اورایشیائی خطے میں بلوچستان کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ بلوچستان کا ایک بارڈر ایران سے منسلک ہے۔ گوادر، آواران اور لسبیلہ کی بڑی زمینی پٹی بحیرہ عرب سے منسلک ہے۔ ایک ساحل پر گوادر، آواران اور لسبیلہ کے علاقے ہیں اوربحیرہ عرب کے اس پار متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب، قطر، یمن اور بحرین آباد ہیں یعنی آپ بحیرہ عرب سے خلیج فارس میں داخل ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد عرب منڈیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایرانی بارڈر کے راستے آپ خلیج فارس میں اترنے کے بعد عراق، اردن، شام، ترکی اور اس کے بعد یورپ کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں۔ رہی دوسری افغان سرحد تو آپ افغانستان کے راستے ترکمانستان، آذر بائیجان، ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان اور قزاقستان کے راستے روس تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ہے بلوچستان کی ایک اورحقیقت۔ اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آپ اسی روٹ کو الٹ کر دیکھیں تو بلوچستان کی اہمیت مزید دو چند ہو جائے گی۔ مثلاً روس کیلے عرب دنیا تک پہنچنے کیلئے سب سے چھوٹا راستہ بلوچستان ہو کر گزرتا ہے۔ روس بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب اور اس کے بعد خلیج فارس میں اتر کر عرب منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ یورپ، ترکی، اردن، شام، عراق اور ایران کو چین،جنوبی کوریا، جاپان اور منگولیا تک پہنچنے کیلئے بھی یہ کم فاصلے کاروٹ ہے۔ اسی طرح عرب امارات، قطر، سعودی عرب، یمن، عمان اور بحرین کو چین، جاپان، جنوبی کوریا، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کیلئے بلوچستان سب سے آسان راستہ ہے۔ اسی طرح چین کو عرب دنیا تک رسائی کیلئے بلوچستان سے گزرنا پڑے گااور رہا بھارت تو اسے بھی روس اور وسط ایشیائی منڈیوں تک پہنچنے کیلئے پہلے پاکستان کے صوبہ پنجاب اور پھر صوبہ بلوچستان کا براہ راست راستہ چاہئے۔ ہاں اگر بھارت ایرانی راستے سے روس اوروسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچنا چاہے تو پھر بھی اسے بلوچستان کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اسی طرح امریکہ کو جنوبی ایشیاء اور عرب دنیا تک اپنے پر پھیلانے کیلئے بھی بحری راستہ چاہئے۔ امریکہ اگر بحر اوقیانوس سے بحیرہ عرب میں داخل ہونا چاہے تو اسے مصر اور فلسطین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ امریکہ کو پہلے بحراوقیانوس سے ا سپین اور مراکو کے درمیانی سمندری راستے بحیرہ روم سے خلیج عدن اور پھر بحیرہ عرب میں داخل ہونا پڑے گا۔ امریکہ نے خلیج عدن تک اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ یہ فلسطین پرقبضہ کر کے اپنا بغل بچہ اسرائیل کو آباد کر چکا۔ اسرائیل کے راستے خلیج عدن کے پانیوں پرقابض ہوچکااور پھر یہاں سے یہ بحیرہ عرب تک اپنا راستہ ہموار کرچکا ہے۔
اب آگے یہ بحیرہ عرب کے راستے اسی بلوچستان سے ہوتا ہوا افغانستان، چین، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس تک پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ ہے بلوچستان کی عالمی حیثیت۔ بلوچستان کے معدنی ذخائرپر عالمی استعماری طاقتوںکی مفاداتی نظریں اور معدنی ذخائر سے مالا مال اس علاقے سے عالمی طاقتیں کیا فائدہ اٹھا سکتی ہیں یہ ایک موضوع ہے۔ یہاں آپ کو صرف بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت بتانا چاہتا ہوں۔ وہ جغرافیائی حیثیت جس کی وجہ سے ا عالمی استعماری طاقتیں بلوچستان پر اپنی مکروہ نظریں گاڑھے ہوئے ہیں۔ یہ بلوچستان کے ذریعے دنیا کی نصف سے زائد آبادی تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ مثلاً چین اور بھارت دنیا کے آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک ہیں۔ دونوں کی آبادی دو ارب 62 کروڑ 70لاکھ سے زائد ہے۔ یہ دونوں بہت بڑی انسانی منڈیاں ہیں۔ اسی طرح روس، وسط ایشیائی اور جنوبی ایشیائی خطے میں بھی 1ارب کے قریب لوگ آباد ہیں اور یہ سارا کھیل ان منڈیوں پر قابض ہونے کا ہے۔ ایشیائی خطے میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظرعالمی استعمار بلوچستان کو غیر مستحکم کر کے اسے پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل صرف اسی مقصد کیلئے افغانستان کی سرزمین پر سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں، بھارتی خفیہ ایجنسیاں، اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی بھی اسی وجہ سے بلوچستان میں متحرک ہیں۔امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں تین مختلف طریقوںسے بلوچستان میں آگ لگائے ہوئے ہیں۔ ایک، دشمن کی ان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار براہ راست ملوث ہیں۔ یہ ’’را‘‘ کا ایجنٹ کلبھوشن یادیو ہو، امریکی جاسوس ہو یا افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکارہوں۔ یہ پاکستان آتے ہیں، بلوچستان پہنچتے ہیں، وہاں علیحدگی پسندوں کی کمر تھپتھپاتے ہیں۔ ڈالروںکے عوض لوگوں کو خریدتے ہیں اور انہیں دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا، یہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں، افغانیوں کو خریدتے ہیں،خاص طور پر وہ افغانی جن کے پاس پاکستان کاشناختی کارڈ موجود ہو۔ یہ ان لوگوں کو بلوچستان بھیجتے ہیں، یہ لوگ یہاں مکروہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں افغانستان کے علاقے سروبی میں واقع قونصل خانہ مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس میں امریکی، بھارتی اور افغانی تینوں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار منصوبے بناتے ہیں۔ تیسراطریقہ۔ یہ خفیہ ایجنسیاں بلوچستان سے لوگوں کو افغانستان لے کر جاتی ہیں۔ انہیں وہاں ٹریننگ دیتی ہیں اور یہ لوگ دوبارہ بلوچستان یا پاکستان میں گھس کر حملے کرتے ہیں۔ یہ ہے پاکستان اور بلوچستان کے خلاف عالمی استعماری اور خفیہ ایجنسیوں کا شیطانی کھیل۔ سوال صرف اتنا سا ہے جب اغیار کا اتحاد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ جب عالمی استعمار کے خفیہ ہاتھ بلوچستان کونوچ کھانے پر تلے ہیں تو ایسی صورت حال میں ہم دشمن کے خلاف کب متحد ہوں گے؟ ہم عالمی مہروں کے گریٹ گیم کو کب سمجھ پائیں گے؟



.
تازہ ترین