• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کی تازہ لہر نے وطن عزیز میں بسنے والے ہر ذی شعور کو اس حقیقت سے روشناس کروا دیا ہے کہ یہ عفریت بار بار سر اُٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلاشبہ فوج، پولیس، پولیس کا ہی ادارہ سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کر نے والے ادارے تندہی سے اس عفریت کا سر کچلنے کے لئے کمر بستہ ہیں مگر ایک واقعہ ہی صرف اس شہر میں مقیم افراد کی ہی زندگیوں کو ہی نہیں بلکہ وطن عزیز میں موجود ہر ذی نفس کی زندگی کو خطرے کا احساس دلا جاتا ہے اور اداروں کی کامیابیاں گہنا جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر یہ معاملہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے پارہا اور دامے درمے سخنے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا چلا جاتا ہے۔ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان میں قائم بعض مذہبی مدارس ان واقعات کی نرسریاں ہیں اور جب تک ان کا موجودہ تشخص موجود رہے گا ملک میں حالات اسی نہج پر قائم رہیں گے۔ راقم الحروف اس تصور سے کلی طور پر اختلاف رکھتا ہے اور اس نظریہ کو درست نہیں سمجھتا کیونکہ مذہبی مدارس تو پوری دنیا میں متعدد ممالک میں موجود ہیں اپنے اپنے نصاب اور نظریات کے مطابق طلبہ میں معلومات منتقل کر رہے ہیں مگر ان مدارس سے تو دنیا میں یہ خطرات نہیں پھیل رہے۔ ان کو نرسریاں بھی تصور نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی سہولت کاروں کے متعلق انگلیاں ان تک اٹھتی ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ استثنائی واقعات موجود ہوں مگر میں مجموعی تصور کی بات کر رہا ہوں، دور مت جائیں ہمارے ہمسایہ بھارت میں مدارس کی بہت بڑی تعداد موجود ہے مگر یہ مدارس وہاں تو بھارت کے وطن پرست اور سیکولرازم کے بڑے بڑے داعیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا نصاب بھی وطن عزیز میں قائم مدارس کے مانند ہے مگر جو اثرات پاکستان میں بیان کئے جاتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی بھار ت میں موجود نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ مدارس کی موجودگی کو بنیادی وجہ ہرگز نہیں گردانا جا سکتا بلکہ مذہبی مدارس کی ہیئت بدلنے کی کوئی کوشش نہ درست ہو گی اور نہ ہی کامیاب ہو سکتی ہے بلکہ ایسی کوشش کے نتیجے کے طور پر مدارس سے وابستہ طبقات اور ریاست میں بدگمانی مزید گہری ہو جائے گی جو ہمارے دشمن کی کامیابی ہوگی۔ لہٰذا ہمیں اس کی بنیادی وجہ تلاش کرنی چاہئے۔ بنیادی وجہ یہ تصور ہے جو کہ ایک طبقہ میں راسخ ہو چکا ہے کہ پاکستان کا ریاستی نظام چاہے سیاسی اداروں کی صورت میں ہو یا انتظامی اداروں کی بات کی جائے کمزور ہے اور اگر کوشش کی جائے تو اس نظام کی جگہ اپنی تعبیرات کو اپنی سربراہی میں نافذ کیا جاسکتا ہے، یہی وہ نظریہ ہے کہ جو دہشتگردی کو پروان چڑھاتا ہے اور اسی نظریہ کو شکست دینے کی ضرورت ہے اس نظریہ کی موجودگی جن اسباب کی بنا پر ہے جب تک وہ اسباب موجود رہیں گے اُس وقت تک یہ سوچ گاہے بگاہے گھروں کو اُجاڑتی رہے گی۔ ان اسباب میں اہم ترین سبب سیاسی اداروں کی کمزوری ہے بار بار کی آمریتوں نے وہ چرکے لگائے ہیں کہ جن کے سبب سے سیاسی ادارے ہمہ وقت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اگر سیاسی بدمزگی ایک حد سے باہر نکلنے لگے تو غیر سیاسی اقدام کے امکانات تناور ہوتے محسوس ہوتے ہیں جب ایسا ہوتا ہے تو عوام میں بے یقینی تیزی سے پنپنے لگتی ہے اور یہی کیفیت عوام کو سیاسی نظام سے بدظن کرنے کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
کبھی مذہب کے نام پر جمہوریت کو کوسا جاتا ہے اور کبھی عوامی وسائل کے درست استعمال نہ ہونے کی بحث کرکے اس کو ہر طریقے سے اُکھاڑ پھینکنے کی دہائی دی جاتی ہے۔ جب نام نہاد دانشور حضرات اپنے آپ کو انارکسٹ ثابت کرنے کے واسطے ایسی گفتگو کرتے ہیں تو پھر مذہب کے نام پر انتہاءپسندی کو واجب گرداننے والے بھی اپنی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے فہم دین کو مسلط کرنے کے لئے ہر حربہ اختیار کرنے کو درست سمجھتے ہیں۔ کیونکہ کمزور سیاسی نظام کا دھڑن تختہ کیا جاسکتا ہے یہ ذہنوں میں راسخ ہو چکا ہے۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ ریاست کے اُن اداروں سے وابستہ ہے جو عوام کے تخفظ کے ذمہ دار ہیں، دنیا میں داخلی سلامتی کی تین فصیلیں ہوتی ہیں پولیس، نیم فوجی ادارے اور فوج۔ داخلی سلامتی میں سب سے اہم ترین اور پہلا عنصر موثر ترین پولیس ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان آزادی کے بعد سے رفتہ رفتہ سول اداروں کی مضبوطی کے بجائے کمزوری کی جانب بڑھتا چلا گیا اور بدانتظامی واضح ہوتی چلی گئی جس کی سب سے بدترین شکل کا سامنا کراچی کے حالات کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس دوران سیاسی حکومتیں بھی برسرِ اقتدار رہیں اور فوجی آمریتیں بھی قائم ہوئیں مگر پولیس کی ادارہ جاتی بنیاد پر تنظیم کرنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ لہٰذا پولیس کا ادارہ کمزور ہوتا گیا۔ پولیس کے ہزاروں جوانوں کی شہادتیں فرائض سے لگن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مگر ان قربانیوں کے وہ اثرات مرتب نہ ہو سکے جو ہونے چاہئے تھے۔ فوج بلاشبہ ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے مگر اس کا استعمال بہرحال امرت دھارے کے طور پر نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک سول اداروں کو انتظامی بحران سے نہیں نکالا جاتا اس وقت تک داخلی سلامتی کے انتہائی موثر حالات قائم نہیں کئے جا سکتے۔ کیونکہ بہرحال کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں کے نظریے کو شکست دینے کے لئے مضبوط سیاسی نظام جس کو کہیں سے بھی آئین کی پامالی کا خطرہ نہ ہو اور جس میں ان قباحتوں کو بھی رفع کر دیا گیا ہو جو انتخابی نظام میں موجود ہیں اور موثر سول انتظامیہ ازحد لازم ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے بیرونی آقائوں کا تعلق ہے تو جب تک ان کو ان کی زمین پر جوابی زور دار تھپڑ رسید نہیں کیا جاتا وہ ہمارے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں گے۔



.
تازہ ترین