• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے اوپر تلے کئی روح فرسا واقعات کے بعد انتہا پسندوں کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون کو نتیجہ خیز اور فیصلہ کن بنانے کے لئے پنجاب میں حکومت کی مدد کی غرض سے رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم پیش رفت ہے جو اتوار کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی زیر صدارت صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی کے علاوہ دو صوبائی وزیر انسداد دہشت گردی، کور کمانڈر لاہور اور ڈی جی رینجرز سمیت اعلیٰ سول وفوجی حکام کی شرکت اس معاملے میں سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا آئینہ دار تھی۔ سندھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف رینجرز اور دوسرے سکیورٹی ادارے پہلے ہی سرگرم عمل ہیں۔ پنجاب میں اب تک یہ ذمہ داری پولیس کے سپرد تھی مگر دہشت گردی کی نئی لہر اور لاہور میں خود کش حملے کی حالیہ واردات کےبعد یہاں بھی رینجرز کے استعمال کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اور اپوزیشن بھی رینجرز بلانے کا مطالبہ کررہی تھی۔ جنوبی پنجاب کی صورتحال بھی اچھی نہیں۔ وہاں کچھ عرصہ پہلے چھوٹو گینگ نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا تھا جسے ایک بڑے آپریشن کےبعد زیر کیا گیا۔ ایپکس کمیٹی نے صوبے کی مجموعی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے، کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں اور انہیں پناہ دینے والوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن، سرحدی اضلاع میں دوسرے صوبوں سے آنے والے سماج دشمن عناصر کی روک تھام اورا فغان مہاجرین کی غیر قانونی نقل وحرکت کی نگرانی کیلئے پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دی۔ رینجرز کے ا ختیارات اور حدود کار کا طریقہ بعد میں طے کیا جائے گا۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت کے تمام ذرائع بند کئے جائیں گے اور ہر جگہ بلا امتیاز کارروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں تمام انٹیلی جنس اداروں میں تعاون مزید بہتر بنایا جائیگا اپیکس کمیٹی نے اپنے اجلاس میں دہشت گردی عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کے مکمل خاتمے کیلئے مربوط موثر اور تیز رفتار اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا ہے جو ملک کے داخلی امن و امان کا اولین تقاضا ہے۔ رینجرز کی مدد سے لاہور، راولپنڈی فیصل آباد، ملتان اور بہاولپور سمیت پنجاب کے دس اضلاع میں کومبنگ آپریشن کیا جائے گا جو ضرورت پڑنے پر دوسرے اضلاع تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔ قوم طویل عرصہ سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کےتحت مسلح افواج نے قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کا صفایا کر دیا مگر افغانستان میں بھارت کی پشت پناہی سے ان کے ٹھکانے اب بھی قائم ہیں۔ جہاں خودکش حملہ آور تیار کئے جارہے ہیں وہ چور دروازوں سے اندرون ملک پہنچ کر سکیورٹی اداروں حساس تنصیبات اور مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑنے کے لئے فوج اور قانون نافذ کرنےوالے دوسرے اداروں کا پہلا باقاعدہ کریک ڈائون کامیابی سے جاری ہے اور افغان سرحد کے اندر بھی دہشت گردوں کے کیمپوں کوتباہ کرنے کیلئے حملے کئے گئےہیں۔ اس کے نتیجے میں کمانڈروں سمیت درجنوں دہشت گرد ہلاک اور سیکڑوں گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ جلد ختم ہونےوالا نہیں کیونکہ عراق اور شام سے بھاگے ہوئے داعش کے جنگجو بھی افغانستان میں جمع ہورہے ہیں اور ان کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ پاکستانی کالعدم دہشت گرد تنظیمیں بھی ان کے ساتھ مل کر وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں بھرپور آپریشن کیا جائے اور پہلےسے موجود یا باہر سے آئندہ آنے والے دہشت گردوں کو کہیں چھپنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ عوام کو بھی بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اسے کرپشن غربت اور بیروزگاری پر بھی قابو پانا ہوگا کیونکہ یہ دہشت گردی کی جڑیںہیں۔ جڑوں کو کاٹ کر ہی اس ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

.
تازہ ترین