• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میںکراچی کے علاقہ اورنگی ٹاؤن کا گزشتہ روز کئی گھنٹے تک میدان جنگ بنارہنا بلاشبہ ایک سنگین معاملہ ہے ۔اخباری رپورٹوں کے مطابق بستی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پولیس نہ صرف علاقے میں جرائم کی سرپرستی کررہی ہے بلکہ پولیس اہلکار خود بھی ڈکیتیوں میں ملوث ہیں ۔ لوگوں کے مطابق پولیس اہلکار تلاشی کے بہانے راتوں کوسیڑھیاں لگاکر گھروں میں داخل ہوجاتے اور لوٹ مار کرتے ہیں۔مظاہرین کے بقول لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈکیتی کرنے والے چند افراد کو پکڑا تو ان میں سے تین پولیس اہلکار نکلے جس پر علاقے کے لوگ مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹائرجلاکر ٹریفک کی آمدورفت معطل کردی جبکہ پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس کی شیلنگ ہی کافی نہیں سمجھی بلکہ براہ راست فائرنگ بھی کرڈالی جس پر لوگ اور بپھر گئے اور انہوں نے پولیس پر شدید پتھراؤ شروع کردیا۔حالات پولیس کے قابو سے باہر ہوگئے تو رینجرز طلب کرلی گئی لیکن پولیس نے منتشر ہوجانے والے مظاہرین کا تعاقب کیا اور گھروں کے دروازے توڑ کر خواتین اور بچوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بتایا گیا ہے کہ دو ہفتے پہلے بھی اسٹریٹ کرائمز کے خلاف لوگوں نے مقامی تھانے کا گھیراؤ کیا تھا جس پر ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا تھا تاہم جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اتوار کے واقعات کے بعد علاقے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے ، لہٰذا وزیر اعلیٰ سندھ کو فوری طور پر حقائق جاننے کے لیے لوگوں کی شکایات خود سن کران کا ازالہ کرنا چاہیے اورجو پولیس اہلکار جرائم میں ملوث پائے جائیں انہیں نشان عبرت بنایا جانا چاہیے ۔ وزیر اعلیٰ نے سیہون میں سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے اور لاشوں کی بے حرمتی پر عذر تراشنے کے بجائے اظہار ندامت کرکے احساس ذمہ داری کا اچھا مظاہرہ کیا ہے، اس کے ازالے کے لیے تو اب ان کے لیے کچھ کرنا ممکن نہیں لیکن اورنگی میں پولیس کے خلاف عوام کی سنگین شکایات دور کرنے کے لیے وہ یقینا تمام ضروری اقدامات کرسکتے ہیں ۔

.
تازہ ترین