• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اک زمانہ تھا جب یہ قوالی بہت مقبول تھی......’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘۔ میں تب بھی سوچا کرتا تھا کہ وہ تو کوئی گورکھ دھندا نہیں خالق و مالک و رازق ہے البتہ زندگی ضرور اک گورکھ دھندا ہے جو سمجھ آبھی جائے تو ہرگز سمجھ نہیں آتی۔ زندگی کی اتنی ہیDefinationsہیں جتنے انسان آج تک اس کرۂ ارض پر اتارے گئے اور ان سب میں قدر مشترک صرف ایک ہی ہے کہ’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘ جتنے انسان ا تنے ہی قصے کہانیاں، افسانے تجربے اور زندگی کی تعریفیں۔ اربوں انسان آپ بیتیاں لکھیں تو مختلف ہوں گی۔گزشتہ چند دنوں سے ایک عجیب سا واقعہ مجھے مسلسل ہانٹ کررہا ہے، بھلائے نہیں بھول رہا سو تنگ آکر فیصلہ کیا کہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں تو شاید میرے سسٹم سے نکل جائے اور بوجھ ہلکا ہو۔ہوا یوں ہے کہ روس کے شہر کرومکن میں ایک خاتون 34سال تک جس لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھ کر پالتی رہی، اتفاقاً ڈی این اے کرانے پر اسے علم ہوا کہ وہ لڑکی اس کی بیٹی نہیں تھی۔ اس خوش نصیب یا بدنصیب عورت کو دوسرا اعصاب شکن جھٹکا اس وقت لگا جب اس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ خود بھی ان ماں باپ کی بیٹی نہیں ہے جنہوں نے اسے پالا تھا۔58سالہ الیزا سیرینوا کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوئی تو اسے اپنا اور اپنی’’بیٹی‘‘ کا ڈی این اے کروانا پڑا۔ نتائج سامنے آنے پر اس راز سے پردہ اٹھا کہ 34سالہ یولیا تو اس کی بیٹی ہی نہیں۔ اس پر اس نے ا پنی بہن کے ساتھ بوجوہ اپنے ڈی این اے کا موازنہ کرایا تو اس پر حیرت کا دوسرا پہاڑ ٹوٹ پڑا کیونکہ جسے وہ زندگی بھر اپنی بہن سمجھ کر بے تحاشا پیار کرتی رہی، دراصل وہ بھی اس کی بہن نہیں تھی، رپورٹ کے مطابق خود الیزا کی پیدائش بھی اسی کرومکن میٹرنٹی ہسپتال میں ہوئی تھی جہاں اس نے 34 برس قبل اپنی اس’’بیٹی‘‘ کو جنم دیا تھا جو درحقیقت اس کی بیٹی ہی نہیں تھی۔ ہوا غالباً یہ کہ دونوں بار ہسپتال کی انتظامیہ نے ماں کو غلط بچے تھما دئیے تھے۔ مزید تحقیق پر معلوم یہ ہوا کہ الیزا نے اس روز جس بیٹی کو جنم دیا تھا وہ بھی قریب ہی رہائش پذیر ایک آرٹسٹ ہے جس کا نام دوگارما ہے۔کیا اوقات ہے انسان کی جو اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ ساتھ حسب نسب پر اکڑتا اور فخر کرتا ہے۔ روز محشر جانے کیسا کیسا تماشا لگے گا کہ بندے کو تو عام طور پر زندگی بھر یہی پتہ نہیں چلتا کہ اس کے سرپر کتنے تل ہیں، کمر پر کوئی برتھ مارک تو نہیں۔ انسان کسی بھی شعبہ کا کتنا ہی پھنے خان کیوں نہ ہو، اپنے بلڈ کے مختلف ٹیسٹوں کی رپورٹ خود نہیں سمجھ سکتا۔ کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے کہ حضور! خون بھی میرا، ٹیسٹ بھی میں نے خود کروائے لیکن آپ بتایئے کہ میرے جسم کے کون کون سے ’’پرزے‘‘ کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر میں ان بچوں کا سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں جو قدرتی، غیر قدرتی آفات یعنی زلزلہ، سیلاب یا جنگ و جدل کے نتیجہ میں اپنے والدین کھوبیٹھتے ہیں یا ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاتے ہیں۔ نہ ماں نہ باپ نہ بہن نہ بھائی نہ چاچا نہ تایا نہ ماموں اور عمر،ماہ، سال، دوسال، چار سال تو اس معصوم کو تو موت تک علم نہ ہوتا ہوگا کہ اس کی ذات برادری کیا تھی، ماں باپ کیسے تھے؟ اسے کس نام سے پکارا پچکارا جاتا تھا، اس کا کون سا نقش یا عادت ماں یا باپ سے ملتی ہے۔ ایسا بچہ بڑا ہو کر’’ولدیت‘‘ کے خانے میں کیا لکھتا ہوگا؟’’نامعلوم‘‘ کے تو اور معنی بھی ہیں اوراگر یہ بچہ کثیر ا لمذہبی علاقہ کا ہو تو اسے کون بتائے گا کہ اس کا آبائی مذہب کیا تھا۔ جب وہ خود باپ بنے گا تو بچوں کے لئے’’شجرۂ نسب‘‘ کہاں سے لائے گا؟کبھی کبھی یہ بھی سوچتا ہوں کہ شمال سے آنے والے بے رحم حملہ آور صدیوں پہلے یہاں سے جن عورتوں کو کنیزیں اور لڑکوں بالوں کو غلام بنا کر لے جاتے تھے، آج وہاں ان کی اولادیں کس رنگ میں رنگی جاچکی ہوں گی؟ ممکن ہے ان میں سے کچھ لوگ یہاں دہشت گردی کے دوران اپنے ہی عزیز و اقارب کے خاندان تباہ و برباد کرکے خوش ہوتے ہوں کہ ہدف حاصل کرلیا۔ گزشتہ آٹھ نو سو سال میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسان تب کے ہندوستان سے جبراًمال مویشیوں کی طرح لے جائے گئے تو ظاہر ہے سب مر تو نہیں گئے ہوں گے بلکہ مالتھس کی تھیوری آف پاپولیشن کے تحت ملٹی پلائی ہی ہوئے ہوں گے اور جیسے ہمارے برلاس، قزلباش، گیلانی، شیرازی، غوری، غزنوی وغیرہ یہاں رچ بس گئے، وہ بھی کھپ کھپا گئے ہوں گے اور کبھی سوچتے بھی نہ ہوں گے کہ ان کے آبائو اجداد غلام بنا کر لائے گئے تھے۔

.
تازہ ترین