• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ تر ترقی یافتہ اور دولت مند قوموں نے جن میں امریکہ اور یورپ پیش پیش تھے، سائنس کے علم اور ریسرچ پر بھاری رقوم خرچ کیں، اس کے نتیجے میں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ملی جس سے انہوں نے اپنی قوموں کے تحفظ اور انسانوں کی سہولت کیلئے نئی نئی ایجادات کیں، ہر میدان میں صحت، رسل و رسائل، جنگ اور امن کی ٹیکنالوجی سب سے بڑھ کر اطلاعات اور معلومات کا تیز تر نظام، تباہ کن ایٹمی ہتھیار، پل میں دشمن کے سروں پر پہنچ جانے والے قابل اعتماد میزائل، جنگی جہاز، آبدوزیں، ہر طرح کے ہلاکت خیز ہتھیاروں کے علاوہ بھی بہت کچھ جس نے انسانی زندگی کو بدل کے رکھ دیا۔ ان کے مقابلے میں معاشی ترقی کیلئے چین، جاپان، کوریا انگڑائی لے کر بیدار ہوئے، انہوں نے یورپ اور امریکہ کی شروعات سے ابتدا کرنے کی بجائے ان کی ریسرچ اور تیار شدہ اشیاء اور مصنوعات کا مطالعہ کیا۔ گاڑیاں، جہاز، بحری جہاز، آبدوزیں، بجلی سے چلنے والی مشینیں، انسانی بیماریوں کو جاننے کے آلات، ان کا علاج غرض ہر ہر میدان میں سب سے اعلیٰ کوالٹی کی بنی بنائی مشینوں کو کھولا، ٹیکنالوجی کو سمجھا اور ’’ریورس انجینئرنگ، کے ذریعے ان کی بناوٹ کے سب طریقے اور اصول سمجھ کر وہی چیزیں بنانا شروع کیں، انہی کے معیار کے مطابق مگر سستی، اس لئے کہ ریسرچ کی مدت اور اس پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر اس میں شامل نہیں تھے۔ آہستہ آہستہ ان ملکوں نے امریکہ اور یورپ کی ساری منڈیوں پر ہاتھ صاف کر لئے، آج ساری دنیا میں جاپان کی گاڑیاں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ خود پاکستان کو بھی جب طاقتور اور بڑے دشمن سے مقابلہ اور عالمی منڈیوں سے ہتھیاروں کی دستیابی میں مشکلات پیش آئیں تو اس نے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا، یہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہی تھا جس نے ہمیں اپنے حجم، طاقت اور بڑی جنگی مشینوںسے ڈرانا چاہا تو ہم نے بھی طاقتور فوج بنائی، مقابلے میں ٹینک، توپیں، جنگی جہاز، سمندروں کی حفاظت کیلئے بحری جہاز، آبدوزیں، بکتر شکن میزائل وغیرہ حاصل کئے۔ 1965ء کی جنگ میں نام نہاد دوستوں نے ہتھیار اور گولہ بارود دینے سے انکار کیا تو ’’ٹیکسلا ہیوی مکینکل کمپلیکس، وجود میں آیا اور ہم نے بھی یورپ کی ٹیکنالوجی اور ریورس انجینئرنگ سے وہ سب بنا ڈالا جس کی ہمیں ضرورت تھی اور بڑی حد تک خودکفیل ہو گئے۔
یہ سب دوسروں کی ریسرچ کو اپنانے سے ہوا، امریکہ نے ٹینک بیچنے سے انکار کیا ’’ریورس ٹیکنالوجی، کا ہتھیار ہمارے کام آیا، طیارہ شکن میزائل سٹنگر امریکہ سے مانگے تو ایک میزائل 80ہزار ڈالر میں بتایا، پھر انڈیا کو خوش کرنے کیلئے ٹکا سا جواب دے دیا۔ صدر پاکستان غلام اسحاق خان اور سپہ سالار اسلم بیگ نے کہوٹہ لیبارٹری کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے یہ ہتھیار بنانے کی درخواست کی تو انہوں نے پچیس ہزار ڈالر میں بالکل ویسا ہتھیار بنا کر پاکستان کو خودکفیل بنا دیا۔ اسی طرح لیزر رینج فائنڈر، بکتر شکن میزائل، ایٹمی ہتھیار، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہر قسم اور ہر فاصلے تک جانے والے میزائل بن گئے، ضرورت پڑی تو چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بنا ڈالے جو بہت ہی مشکل اور جدید ٹیکنالوجی تھی۔ ایف 16طیاروں کے حصول میں مشکلات نے فضائیہ کو جدید طیارے بنانے کا حوصلہ دیا، آج چین کے تعاون سے ہم اپنا جنگی طیارہ بنانے میں کامیاب ہوئے جو دشمن کے ہر جنگی جہاز کا مقابلہ کر سکتا ہے، ریورس انجینئرنگ کی تکنیک اختیار کر کے نہ صرف ویسے ہتھیار بنا لئے بلکہ اپنے انجینئرز، ٹیکنیشنز کی خداداد ذہانت سے ان کی صلاحیت کو زیادہ بہتر بنایا گیا۔ ہم نے فوج کی تربیت، جوانوں کی تیاری، ہتھیاروں کے حصول، ان کی چالوں کے توڑ، زمین، فضا اور سمندر میں مقابلے کیلئے ہر جتن کیا اور تیاری، بیداری اور ہوشیاری سے دشمن کو اس کی ہزار کوشش اور خواہش کے باوجود قریب پھٹکنے کا موقع نہیں دیا بلکہ وہ پاکستانی فوج اور سائنس دونوں کی قابلیت کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ بحر و بر کی حقیقی جنگ، فضا میں لڑنے اور مقابلہ کرنے کیلئے ہماری فوج اور قوم پوری طرح تیار ہے۔ دشمن کے لئے اس کا سامنا کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے لیکن وہ دشمن ہی کیا جو ’’نچلا بیٹھ رہے، جب میدان میں مقابلہ دشوار ہے تو پھر کوئی ہوشیاری، چالاکی یا سازش ہی سہی۔ اپنی چالاکی اور سازش کے ساتھ ایک دفعہ ہمیں پچھاڑ ڈالا، 1971ء کی جنگ میں مشرقی بازو میں بغاوت پیدا کی، تخریب کاری کی راہ اختیار کر کے فوج اور عوام کو سامنے کھڑا کیا اور غداروں کی سنگت سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ انڈیا کو 1971ء کے کئے کا جواب ملا ہی چاہتا تھا کہ ہمارا دوست نما دشمن، دشمن کے کام آیا اور ساری قیادت ایک ہی وار میں بہاول پور حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس حادثے کے بعد دشمن بچ نکلا مگر نچلا نہیں بیٹھا، اس کی نئی کوشش جاری ہے، اب وہ جنگ کی لکیر کو مشرق سے اٹھا کر مغرب میں لے آیا ہے اور ایک نئی طرح کی’’پراکسی وار، (خفیہ جنگ) کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ہم پر مسلط کر دی گئی ہے۔
کھلے میدان میں جنگ کے مقابلے سے ہمارا دشمن بغیر لڑے منہ پھیر چکا ہے مگر اس نے ہمیں تباہ کرنے کے مذموم ارادوں سے ہاتھ نہیں کھینچا، اس کام کیلئے اب اسے ایک طاقتور کندھا اور چھپ کے وار کرنے کیلئے مغربی پہاڑوں میں گہری سرنگ دستیاب ہو گئی ہے، یہ پہلی بار نہیں ہوا، 1980ء کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش پر، افغانوں کی جنگ آزادی میں پاکستان نے بھائیوں کی مدد کی تب یہ ’’بلی، روسی ریچھ کے ساتھ مل کر پاکستان میں دھماکے کروایا کرتی تھی، ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں نے دوطرفہ حملے کا مناسب اور مؤثر جواب دیا، ایک کے مقابلے میں دو دھماکے ہوئے اور انڈیا کے چاروں طرف ہمسایوں کو بھی اپنی دوستی میں گانٹھ لیا، افغانستان میں روس کے انخلاء کے بعد قریب تھا کہ 1971ء کا بدلہ چکا دیا جاتا، پھر وہی ہوا جو خود کو دوست کہا کرتے تھے انہوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا، بدلہ لینے کی کوششوں کے ساتھ ہی خواہش بھی رفت گزشت ہوئی، ستمبر 2001ء کے بعد امریکی اونٹ افغانستان کے خیمے میں آن گھسا تب یہ ’’بلی‘‘ بھی اس کی ’’کوہان‘‘ پر بیٹھ کر چلی آئی۔
پچھلے پانچ چھ دنوں میں پرانا کھیل نئے سرے سے شروع ہو گیا ہے، یہ آگ اور خون کا کھیل صرف ایک ہفتے سے کم مدت میں پولیس افسروں اور فوجی محافظوں کے علاوہ ہمارے 118بے گناہ شہریوں کو شہید اور چار سو سے زیادہ کو اسپتالوں کی راہ دکھا چکا، اس کھیل کا اصل کھلاڑی بھارت ہے تو اس کا آلۂ کار حسب سابق افغانستان کی خفیہ ایجنسی جو پہلے رائونڈ میں ’’خاد‘‘ ہوا کرتی تھی، اب ’’این ڈی ایس‘‘ کے نام سے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہی ہے تو امریکہ ان کا سہولت کار ہے، کہ امریکی حمایت اور تعاون کے بغیر انڈیا افغانستان میں داخل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم ہر میدان میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں، ہر جنگ کے میدان، سمندر یا فضا میں۔ یہ سب ہمارے سائنس دانوں اور انجینئرز نے اپنی بے مثل فوج کیلئے ’’ریورس انجینئرنگ‘‘ اور ٹیکنالوجی سے حاصل کیا ہے، تو کیا انڈیا کی سازش بھری خفیہ جنگ اور اس کے جواب میں ہماری عالمی نمبر ایک آئی ایس آئی کے پاس کوئی جواب نہیں بن پڑتا؟ تو پھر یہاں بھی ریورس انجینئرنگ کو کام میں لانے سے کون منع کرتا ہے جبکہ یہ ٹیکنالوجی ہمیں کہیں سے درآمد نہیں کرنا، اس کی ساری تکنیک اور نقشے، ضیاء الحق، اختر عبدالرحمٰن، اسلم بیگ اور حمید گل نے ’’جنرل نوید مختار‘‘ کے دفتر میں محفوظ چھوڑے ہیں، اگر خود پر بھروسہ نہیں تو ان کے ٹھوس نقوش قدم تو ہیں، جو غور سے دیکھنے پر صاف نظر آئیں گے پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ۔

.
تازہ ترین