• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر 1979ء میں جب’’ آنجہانی‘‘ سوویت یونین کی 90 ہزار فوج افغانستان میں داخل ہو کر کابل کی کٹھ پتلی حکومت سے مداخلت کی دعوت کا پروانہ لے کر پورے ملک پر قابض ہوئی تھی تو اسلام آباد نے اس اقدام پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا تھا اور شدت سے مذمت بھی۔ چند ہی دنوں میں ماسکو کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف ایسا ہی عالمی ردعمل سامنے آیا تو اگلے چند ہفتوں میں ہی ایک غیر اعلانیہ عالمی اتحاد وجود میں آگیا جس کا فقط مقصد ’’افغانستان سے روسی افواج کا انخلا‘‘ تھا۔ ماسکو کسی حالت میں کابل چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا، ایسے میں امریکہ نیٹو، پوری اسلامی دنیا، چین، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت پوری دنیا (ماسوائے مشرقی یورپ یا کافی حد تک بھارت) نے افغانستان سے روسی کشور کشائی کے اس جارحانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے روسی افواج کے افغانستان سے انخلا کو عالمی سیاست پر ترجیحاً اولین ایجنڈا بنا دیا جس کا اظہار اس مطالبے کی شکل میں ہر سال (تادم جنیوا معاہدہ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہوتا رہا۔ بھارت اس اجلاس سے غائب ہوتا رہا اوراپنے جبراً زیر اثر مجبور و معصوم لینڈ لاکڈ ہمسائے بھوٹان کو بھی یہی پوزیشن لینے پر مجبور کرتا رہا حتیٰ کہ ممبر ممالک کو بین الاقوامی دھارے میں ثابت کرنے کے لئے جنرل اسمبلی کے اجلاس ایجنڈے میں ’’افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا‘‘ کے مطالبے کا ہمنوا بننا لازم ہوگیا تو بھوٹان نے بھی جنرل اسمبلی کے آخری دو اجلاسوں میں یہ ہمت کر لی کہ وہ بھی عالمی برادری کی صف میں آگیا اور اس نے اپنے غیر حاضر رہنے کی پوزیشن ختم کردی اور روسی افواج کو انخلا کے حق میں ووٹ دیا۔
پاکستان، افغانستان، بھارت اور پورے جنوبی ایشیا کی نئی نسل پر یہ واضح کرنا، آئندہ علاقائی امن خصوصاً خطے کو دہشت گردی سے پاک بنانے کے لئے بے حد ضروری ہے کہ اس پس منظر میں افغان عوام نے بھی اپنے ملک پر سوویت افواج کے قبضے کے خلاف صرف بغاوت ہی نہیں کی تھی بلکہ انہوں نے بین الاقوامی خصوصاً امریکی یورپی اسلامی دنیا کی معاونت سے ایک طویل مزاحمت کا آغاز کیا تھا، جس میں سولہ لاکھ افغانوں نے جانوں کی قربانی دی اور پوری دنیا میں شہدائے وطن کہلائے۔ ’’آزادی کی حمایت‘‘ اور ’’جارحیت کی بیخ کنی‘‘ کی اس گریٹ گیم میں پاکستان کا کردار سب سے بڑے ’’سہولت کار‘‘ کا تھا جو اس نے ’’فری افغانستان‘‘ کے لئے افغانستان کو آزاد کرانے کے لئے ہمسایہ ملک کی حیثیت میں ’’بیس کیمپ‘‘ بن کر ادا کیا۔ واضح رہے کہ روسی افواج کے قبضے کے خلاف افغان عوام کی من حیث القوم مزاحمت کا پلیٹ فارم وہ 9 جماعتی اتحاد تھا جسے دنیا مجاہدین کے الائنس کے نام سے جانتی تھی اور اسے بطور آبزرور جنرل اسمبلی اور دوسرے عالمی فورم کے اجلاسوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ خطے کی تیزی سے پیچیدہ ہوتی اور شعوری طور پر الجھائی گئی تاریخ کے جاری عمل میں دنیا اور جنوبی ایشیا خصوصاً نئی افغان نسل کو یہ یاد دلانے اور واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان پوری افغان قوم کی اس جنگ آزادی میں ان کے ہدف کے جلد اور مکمل حصول کے لئے عالمی معاونت کی فراہمی کا بیس کیمپ تھا، اس کے برعکس آج کابل، پاکستان کے خلاف افغانستان میں موجود دشمنان پاکستان (جس میں پاکستان کی داخلی سلامتی کے در پے بھگوڑے بھی شامل ہیں) کا سہولت کار بھی ہے اور بیس کیمپ بھی۔ ہم بحیثیت قوم افغانستان کی آزادی کے لئے یہ کردار بڑے خطرات مول لے کر اور 35لاکھ مہاجرین کو پناہ دے کر نبھاتے رہے اور آج افغان حکومت نے اپنے ملک کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گرد قوتوں کی معاونت کا بیس کیمپ بنا دیا۔
سامراجی ڈیزائن کی ’’افغان جمہوری حکومت‘‘ اور اس کی گماشتہ خفیہ ایجنسی پر واضح ہونا چاہئے کہ ہماری تمہاری آزادی کے لئے معاونت او رتمہاری مہاجر بنی آبادی کو اپنی سرزمین پر پناہ کے جذبے کی طاقت، تمہاری اور کابل میں موجود تمہارے غیر ملکی سرپرستوں کی اس مشترکہ طاقت سے زیادہ ہے، جو پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کرنے کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔
ہمیں یہ طاقت دہشت گردی حقیقتاً جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے جذبے اور اقدامات سے حاصل ہوئی، یوں کہ ہم اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں سے اپنی خودمختاری متاثر ہونے کے باوجود مخصوص سفارتی موقف اختیار کئے اصلاً اسے تسلیم ہی کرتے رہے کہ ہدف دہشت گرد ہوتے، ہمارے بھگوڑے دہشت گرد تمہارے ہاں ’’محفوظ جنتوں‘‘ میں پناہ لئے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان پر کبھی کوئی ڈرون گرا نہ ان کے انخلا کی کوئی اور کوشش۔ ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ جب روسی افواج افغانستان میں تھیں تو کابل میں کٹھ پتلی حکومت تھی اور عوام آزادی کے لئے لڑ رہےتھے۔ آج بھی کابل حکومت، کابل میں ہی ہے۔ افغان سرزمین ہی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کی جارہی۔ بلکہ سب جانتے ہیں کابل حکومت بھی پاکستان کے معصوم شہریوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور پاکستان کے خلاف وہ خود دہشت گردی کو کس طرح ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ اس کے معاوضے کے طور پر افغانستان میں جو ترقی ہورہی ہے وہ ترقی نہیں تباہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی تاریخی نیک نیتی جو اس نے برادر اسلامی ہمسائے کے لئے اختیار کی تھی اور اس کے مطابق پرخطر اطرافی اثرات کے ساتھ قومی موقف اختیارکیا تھا، اس کی سچائی اور طاقت آج یوں آشکار ہوئی ہے کہ روس، پاکستان اور چین کی پرامن عالمی اقتصادی منصوبہ بندی کی نئی جہد کی تشکیل میں ہمارا شریک ہوا چاہتا ہے اور بھارت کشمیر میں سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔
افغان عوام اور توفیق ہو تو حکام بھی اس سچائی کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ دسمبر 1979میں اس پر جو سوویت جارحیت ہوئی تھی، اس کے پس پردہ بدنیتی اور ہوس کو خود آنے والی سوویت قیادت نے اسے باطل جانا تھا، جسے دنیا نے اور پاکستان نے۔ سابق صدر گوربا چوف کی شہرہ آفاق اپروچ پریسٹریکا (ضمیر کی آواز) اوراس کے مطابق اقدام گلاسناسٹ (کشادگی کی پالیسی)نے سوویت ایمپائر کے کروڑوں محبوس عوام کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا۔
آخری سوویت قیادت میں غلطی کے اعتراف کی طاقت نے ہی یہ صورتحال پیدا کی کہ افغانستان سے روسی افواج کا ہدف تو پیچھے رہ گیا، سوویت ریاستوں کو آئین میں شامل الگ ہونے کی ’’آزادی‘‘ جب نام نہاد نہ رہی اور گوربا چوف اور قوم نے اسے حقیقتاً تسلیم کر لیا تو افغانستان کیا، جبراً سوویت ایمپائر میں شامل کی ہوئی اقوام بھی آزاد ہوگئیں۔
الحمدللہ! پاکستان کی طاقت حق اور سچائی کی تائید و حمایت اور اس کے لئے خطرات مول لے کر حق پر قائم دائم رہنے سے حاصل ہونے والی طاقت ہے۔ آج کی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ لڑنے والا اور سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جبکہ نائن الیون کے واقعے سے اس کا کوئی دور دور کا تعلق نہیں، حالات نے ہمارے ملک میں شدت پسندوں کی جو آماجگاہیں بنائی تھیں جو عالمی سیاست سے دہشت گردی کی آماجگاہ نہیں، ہم نے وہ بھی اللہ کی تائید اور اپنے زور بازو سے ختم کردی ہیں سو، ان شاء اللہ پھر پاکستان اعلیٰ و ارفع نتائج کے ساتھ سرخرو ہوگا۔

.
تازہ ترین