• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج بات ہوگی کھیل، کھلاڑیوں اور روکڑے کے بارے میں۔ سب سے پہلے روکڑے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم کراچی اور بمبئی کے پرانے باسی پیسے کو روکڑا کہتے ہیں۔ یہ لفظ اب تک بمبئی میں مروج ہے۔ زیادہ تر لوگ بمبئی میں پیسے کو روکڑا کہتے ہیں۔ کراچی سے یہ لفظ معدوم ہوچکا ہے۔ لیاری، کھڈا، چاکیواڑہ، رانگیواڑہ، بھیم پوری، ککڑی میں رہائش پذیر کراچی کے پرانے باسی اب بھی پیسے کو روکڑا بولتے ہیں۔
روکڑا وہ بھگوان ہے جس کی پوری دنیا میں پوجا ہوتی ہے۔ روکڑے بھگوان کی پوجا صرف ہندو نہیں کرتے۔روکڑابھگوان چونکہ بڑے بڑے بھاگوانوں اور بھگوانوں کا بھگوان ہے اس لئے ساری دنیا روکڑے بھگوان کی پوجا کرتی ہے۔ کوئی ہندو ہو یا مسلمان، سکھ، عیسائی یا یہودی ہو، سب لوگ روکڑے بھگوان کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ پچھلے ہفتہ آپ نے پاکستانیوں کو روکڑے بھگوان کے پیچھے بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا؟ بھئی میں ویلنٹائن ڈے کی بات کررہا ہوں۔ آپ نے دکانوں کی ہوشربا سجاوٹ دیکھی تھی؟ لوگوں کا رش دیکھا تھا؟ میں مکمل وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ویلنٹائن کے نام پر تحفے تحائف بیچنے والے اور تحفے تحائف خریدنے اور دوست، احباب اور اقارب میں بانٹنے والے قطعی نہیں جانتے کہ ویلنٹائن کون تھا۔ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے ذہن میں روکڑے بھگوان کے پجاریوں نے یہ بات بٹھا دی ہے کہ ویلنٹائن محبت کا دیوتا ہے۔ ویلنٹائن محبت کا اوتار تھا حالانکہ یہ القاب ننھے منے یونانی دیومالائی بچے کیوپڈ کے ہیں۔ اس کے پر ہوتے تھے۔ وہ تیر کمان پکڑے اڑتا پھرتا تھا۔ لوگوں کے دل میں ایک دوسرے کیلئے چاہت کے تیر پیوست کرتا تھا۔ محبت کا تیر کھا کر لوگ ایک دوسرے سے اٹوٹ محبت میں گرفتار ہوجاتے تھے، یورپ میں اب بھی اگر کوئی اچانک کسی کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو ایسی چاہت کو کیوپڈ کے تیر سے منسوب کیا جاتا ہے۔
روکڑے بھگوان سے میری مراد ہے دولت۔ دولت کی بے انتہا ریل پیل کرسمس کے تہوار پر ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں اب دوسرے نمبر پر دولت کی ریل پیل ویلنٹائن ڈے پر ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں اعداد و شماراس حقیقت کے برعکس ہیں۔ کرسمس کے مقابلے میں پاکستان میں دولت کی زبردست ریل پیل ویلنٹائن ڈے پر دکھائی دیتی ہے۔ اس حقیقت کا ایک ہی سبب ہے۔ کرسمس صرف عیسائی مناتے ہیں جبکہ ویلنٹائن ڈے عیسائی، مسلمان، ہندو مل کر مناتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والے قطعی کچھ نہیں جانتے کہ ویلنٹائن کون تھا۔ قطع نظر اس کے کہ ویلنٹائن کون تھا، پاکستانی بڑے زور شور سے ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ اس کے پیچھے ویلنٹائن کیلئے کسی کے دل میں نہ عزت ہوتی ہے اور نہ احترام ہوتا ہے۔ یہ اکنامکس کا کھیل ہے جو دولت سے کھیلا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مذاہب کے نام پر لڑی گئیں ہولناک جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ بین السطور ان جنگوں کی تاریخ کا جائزہ لیں۔ ان جنگوں کے پیچھے اقتصادیات Economicsکار فرما دکھائی دے گی۔ بہت طاقت ہے روکڑے بھگوان میں۔
اب آتے ہیں کھیل اور کھلاڑیوں کی دنیا میں روکڑے بھگوان کے عمل دخل کی طرف۔ آپ کو اندازہ ہے کہ مختلف کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں کی آمدنی کتنی ہوتی ہے؟ اصل میں ہمیں بات کرنی ہے کرکٹ سے وابستہ ہمارے اپنے کھلاڑیوں کے بارے میں۔ مگر ایک نظر ڈالتے ہیں دوسرے کھیل کھیلنے والے بین الاقوامی کھلاڑیوں پر۔ آپ حیران نہ ہوں۔ کچھ کھلاڑیوں کی آمدنی ہالی وڈ اور بالی وڈ کے بڑے سے بڑے ایکٹر کی کمائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ فٹبال کے دو کھلاڑی میسی اور رونالڈو ایک سیزن میں اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ ٹینس کے کھلاڑی راجر فیڈر، رافیل اور سیرینا ولیمز بھی ایک سیزن میں اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ گولف کے کھلاڑی ٹائیگر وڈس کی کمائی بھی کروڑوں ڈالرز میں ہے۔ نو اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والا ایتھلیٹ دنیا میں سب سے تیز دوڑنے والا شخص اوسین بولٹ ایک سو اور دو سو میٹر کی ریس دوڑنے کیلئے کروڑوں ڈالر لیتا ہے ۔ ایک سیزن میں اس کی آمدنی کھربوں ڈالر سے تجاوز کر جاتی ہے۔
کھیل، خاص طور پر فٹ بال، ٹینس، گولف، باکسنگ اور ایتھلیٹکس کئی اداروں کے لئے کاروبار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ایڈورٹائیز رس ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں Betting یعنی شرط لگانے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے گھوڑا دوڑ میں شرط لگانا جائز ہے۔ اس کو جوا نہیں سمجھا جاتا۔ پیر سائیوں کے اپنے گھوڑے ہیں۔ کراچی اور لاہور کے ریس کورس میں گھوڑے دڑواتے ہیں۔ ٹکٹوں کی شکل میں شرطیں لگتی ہیں۔ رونالڈو میچ کے دسویں منٹ میں گول کرے گا۔ اس پر ہزاروں لاکھوں ڈالر کی شرطیں لگتی ہیں مگر آپ کھارادر میں بیٹھ کر یہ شرط نہیں لگا سکتے کہ ویرات کوہلی اس مرتبہ ڈبل سنچری کرے گا یا نہیں کریگا۔ ہمارے پولیس قوانین میں یہ جوا ہے۔ آپ دھر لئے جائو گے۔ اسٹاک مارکیٹ سے شیئرز کی خرید و فروخت جوا نہیں ہے۔ آپ جس مل، فیکٹری، کارخانہ وغیرہ کے شیئر خریدتے ہیں وہ آپ نے دیکھے ہوئے نہیں ہوتے ۔ مگر آپ جوا کھیلتے ہیں۔ شیئرز خریدتے ہیں۔ کچھ عرصے میں شیئرز کی قیمت دگنی، دس گنی، سو گنی ہوجاتی ہے یا پھر شیئرز کی قیمت چوپٹ ہوجاتی ہے۔ دس روپے کا شیئر دس پیسے میں بکتا ہے۔ اس کاروبار میں چونکہ روکڑا بھگوان کے بڑے بڑے پجاری شامل ہوتے ہیں اس لئے اس کو جوا نہیں کہتے۔ اگر شرط لگے کہ دبئی میں ہونے والے میچ میں کرس گیل پہلی گیند پر چھکا مارے گا، تو پھر آپ کی یہ حرکت جوے کے زمرے میں آتی ہے۔ گھوڑا دوڑ پر شرط لگانا جوا نہیں ہے۔ بلکہ جائز انوسٹمنٹ ہے مگر دو ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچ میں ٹاس کون جیتے گا؟ اس بات پر شرط لگانا جوا ہے۔ سب گڑبڑ گھوٹالا ہے۔
جب آج کا کالم میں نے لکھنا شروع کیا تھا تب میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے دو باتیں کروں گا۔ ایک یہ کہ میچ فکسنگ کس بری بلا کو کہتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ آپ دولت سے سب کچھ خرید نہیں سکتے۔ مگر میں ارادہ پورا نہ کر سکا۔ کتھا سنانے کیلئے مجھے ملی ہوئی جگہ ختم ہوگئی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ میں رن آئوٹ ہوگیا۔

.
تازہ ترین