• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمر درد کے حوالے سے مشہور پرویز مشرف نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں حکومت کو مفت مگر مفید مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان اور اس خطے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، اسے اپنے ساتھ ملایا جائے۔ بات تو مضحکہ خیز ہے کہ امریکی صدر دودھ پیتا بچہ ہے اور اسے کوئی لالی پاپ دیکر بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے مگرچونکہ کمانڈو نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ اس مفروضے کی بنیاد پرہی ایک تازہ ترین لطیفہ تخلیق کیا گیا ہے جو حقیقت کے قریب ترین ہے لہٰذا اسی سے بات شروع کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار تھے، نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش کو بھی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ چنانچہ اس نے کونڈولیزا رائس، رمزفیلڈ اور ڈک چینی پر مشتمل ایک وفد کو پاکستان بھیجا تاکہ وہ امریکہ کے نان نیٹو اتحادی کے بارے میںتمام ترتفصیلات اور جزیات معلوم کریں۔ جب یہ امریکی وفد اسلام آباد سے جیکب آباد جا رہا تھا تو کچھ ہی دیر بعد ان کو لے جانے والے خصوصی طیارے کا توازن خراب ہو گیا اور جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ کونڈولیزا رائس نے گھبرا کر پوچھا کیا ہوا؟انہیں بتایا گیا کہ جہاز کے انجن کو ایندھن کی سپلائی منقطع ہو گئی ہے۔ تینوں امریکی عہدیداروں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ اب کیا ہو گا؟جہاز کے پائلٹ نے ہنستے ہوئے کہا، کوئی جگاڑ کرتے ہیں آپ ٹینشن نہ لیں۔ دورہ مکمل ہونے کے بعد مذاکرات شروع ہوئے اور امریکی وفد نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ افغانستان میں کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار کے پاکستان آ جاتے ہیں ان کا کچھ کریں، پاکستانی حکام نے بتایا کہ ان علاقوں میں ہمارا کنٹرول اور حکومت کی رِٹ تو نہیں ہے لیکن کرتے ہیں کوئی جگاڑ۔ اس سہ رکنی وفد نے اور بھی کئی مواقع پر متعدد لاینحل مسائل جگاڑ کی مدد سے حل ہوتے دیکھے اس لئے جب یہ وفد واپس امریکہ گیا تو جارج بش کو بتایا کہ پاکستانی بہت تیز طرار لوگ ہیں انہوں نے کوئی ایسی حیرت انگیز چیز ایجاد کی ہے جس سے دنیا کا ہر مسئلہ پلک جھپکنے میں حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے بارے میں زیادہ تفصیل تو معلوم نہیں البتہ اسے جگاڑ کہا جاتا ہے۔ جارج بش بھی بہت متاثر ہوا۔ اس نے بلا تاخیر پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا اور کہا آپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے بس ایک کام اورکر دیں۔ پرویز مشرف نے کہا، جناب صدر بتائیں، ہم آپ کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟بش نے کہا، آپ نے کوئی حیرت انگیز چیز ایجاد کی ہے جس سے ہر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، بس یہ جگاڑ ہمیں دیدیں۔ مشرف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا، ہم نے آپ کو اپنی فضائیں دیدیں، فوجی اڈے دیدیئے، لاجسٹک سپورٹ دیدی، ہر مطالبہ پورا کیا لیکن یہ بات نہیں مان سکتے کیونکہ جگاڑ پر تو ہمارا پورا ملک چل رہا ہے، اگر ہم نے یہ آپ کو دیدیا تو پاکستان کیسے چلے گا۔
ہمارے ہاں بعض الفاظ، کچھ تراکیب اور چند محاورے ایسے ہیں جن کا دنیا بھر میں کوئی متبادل اور مترادف نہیں۔ جگاڑ بھی ایسی ہی کثیر المقاصد اصطلاح ہے جو اپنے دامن میں الفاظ ومعنی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ گھر ہو دفتر یا پھر کھیل کا میدان جگاڑ ایک ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو ہر جگہ کام آتی ہے۔ کالج سے چھٹی کرنی ہو، بغیر پڑھے نمبر لگوانے ہوں، بغیر پیسوں کے برگر یا پیزا کھانا ہو، پکنک پہ جانا ہو، گھر میں دستی یوپی ایس لگانا ہو، بوتلوں میں برف ڈال کر پنکھے کو ایئر کنڈیشنر بنانا ہو، ایک انرجی سیور کو خراب ہونے کے بعد بار بار چلانا ہو، پیٹرول ختم ہو جانے یا ٹائر پنکچر ہو جانے کے بعد موٹر سائیکل دوڑانی ہوتو پاس بیٹھا جگری یاربے ساختہ کہ اٹھتا ہے’’ابے کوئی جگاڑ لگا‘‘ہمارے معاشرے کو انفرادی طور پر جگاڑ لگانے کی ایسی لت لگی ہے کہ اب ہم محنت کرنے اور حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے بجائے ہر پل جگاڑ لگا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ جگاڑ کے شارٹ کٹ سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
جگاڑ کی یہ روش اب تو انفرادی زندگیوں سے نکل کر ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ اب محکمے اور ادارے جگاڑ کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں صبح شام جگاڑ کے لامحدود امکانات پر بات ہوتی ہے۔ سنجیدہ نوعیت کے قومی مسائل پر پالیسیاں بنانے اور حکمت عملی طے کرنے کے بجائے جگاڑ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں تو جگاڑ کا مقصد پیسے بچانا اور محدود وسائل میں کام چلانا ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کنجوسی کے چکر میں نہ صرف بے پناہ وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ فضول قسم کے تجربات میں سرمایہ بھی توقعات سے کہیں زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال نندی پور پاور پروجیکٹ ہے جہاں ہم نے کئی سال جگاڑ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی اس منصوبے کو عجلت میں ڈیزل ایندھن پر چلایا تو کبھی سلفر پراسیسنگ پلانٹ لگائے بغیر ہی فرنس آئل پر بجلی پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ کسی جگاڑو نے مشورہ دیا تو اسے گیس پر منتقل کرنے کی ٹھان لی اور سوچے سمجھے بغیر گیس کی ترسیل کے لئے 88کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھا دی۔ جب ہر طرح کی جگاڑ لگانے کے باوجود پلانٹ نہیں چل سکا تو اب اسے ایک چینی کمپنی کو دس سال کے لئے ٹھیکے پر دیدیا گیا ہے۔
دہشت گردی ایک اور سنگین نوعیت کا قومی مسئلہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنی پولیس کو وسائل، ہتھیار اور تربیت فراہم کرکے پہلے دفاعی حصار کو مضبوط کرتے تاکہ مستقل بنیادوں پر اس لعنت سے چھٹکارا پانا ممکن ہوتا لیکن اس ضمن میں بھی ہم نے ہمیشہ جگاڑ لگانے کی کوشش کی اورتازہ ترین جگاڑ یہ ہے کہ کراچی میں ’’شاندار کامیابی ‘‘ کے بعد پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لئے رینجرز کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وضاحت:گزشتہ کالم جو دوائوں کے نام پر موت بانٹنے والوں کے حوالے سے لکھا گیا تھا، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ حکومت کسی صورت بلیک میل نہیں ہو گی اور اس قانون پر من و عن عملدرآمد ہو گا۔

.
تازہ ترین