• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سامنے اسٹیج پر وہ پانچ شخصیتیں بیٹھی ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں، لیکن یہ چھٹی شخصیت کون ہے؟ نہایت ہی سادہ کپڑ ے پہنے، چھڑی پر دونوں ہاتھ جمائے، اور گردن جھکائے یہ بزرگ خاتون ایسے بیٹھی ہیں جیسے انہیں زبردستی وہاں بٹھا لیا گیا ہو۔ ہم ڈاکٹر اشتیاق احمد کو جانتے ہیں۔ مشہور مورخ اور سیاسی مبصر ہیں، ہم کشور ناہید کو جانتے ہیں جنہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں، ہم نعمان نقوی صاحب کو جانتے ہیں، استاد ہیں اور نہایت معتبر سیاسی اور سماجی مفکر ہیں۔ اور ہم ہندوستان سے آئے ہوئے مہمانوں اروشی بٹالیہ اور سدھیندر کلکرنی کو بھی جانتے ہیں۔ اروشی نے تقسیم کے وقت بے گھر اور بے در ہونے والی عورتوں کی داستان رقم کی ہے۔ اور کلکرنی صاحب اس وقت اپنے منہ پر کالک لگوا کر مشہور ہوئے جب ممبئی میں ہمارے خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب ہو رہی تھی۔ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات پر کتاب بھی لکھی ہے۔ مگر یہ بزرگ خاتون وہاں کیا کر رہی ہیں؟اور ہاں ان کے ساتھ ان کا جوان بیٹا بھی تو بیٹھا ہے۔ پنجابی بولنے والا بیٹا جس نے سندھی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے۔ یہ کون ہیں؟ اب ڈاکٹر اشتیاق احمد یہ معمہ حل کرتے ہیں۔ وہ معمہ حل کرتے ہیں اور بیچ لگژری ہوٹل کے اس ہال میں بیٹھے پچاس ساٹھ افراد کو جھرجھری آ جاتی ہے۔ بات ہی ایسی ہے۔ ان بزرگ خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا، اور انہوں نے جیسی زندگی گزاری وہ تو افسانوں، ناولوں اور فلموں میں بھی نظر نہیں آتی۔ وہ خاتون سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ نام رکھا گیا رنبیر کور۔ ابھی چھوٹی سی لڑکی ہی تھیں کہ فسادات پھوٹ پڑے۔ وہ اپنے خاندان سے بچھڑ گئیں۔ پاکستان کے ایک مسلمان خاندان نے انہیں سہارا دیا۔ وہ مسلمان ہو گئیں۔ اب ان کا نام شہناز بیگم تھا۔ ان کی شادی ایک مسلمان سے ہو گئی۔ اسی عرصے میں دونوں ملکوں میں کھوئی ہوئی عورتوں کی بازیابی کا معاہدہ ہوا۔ شہناز بیگم واپس ہندوستان چلی گئیں۔ اب وہ پھر رنبیر کور تھیں۔ ہندوستان میں ان کی شادی ایک سکھ سے کر دی گئی۔ بچوں کی محبت انہیں پھر پاکستان لے آئی۔ اب وہ پاکستان میں رہتی ہیں۔ اور شہناز بیگم ہیں۔ سوال کیا گیا کہ اب وہ ہندوستان نہیں جانا چاہتیں؟ ان کا جواب تھا ’’نہیں، میں پاکستان میں ہی رہوں گی‘‘۔ بہت کوشش کی گئی کہ وہ کچھ اور بھی بو لیں۔ مگر انہوں نے مزید کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے یہ خاتون، جو اب اسّی کے پیٹے میں ہیں، کن کن عذابوں سے نہیں گزری ہوں گی؟ کیا کچھ نہیں سہا ہو گا انہوں نے؟ مگر یہ تو ایک عورت ہیں۔ اروشی کہتی ہیں کہ ایسی کتنی ہی لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اور وہ تاریخ کے اوراق میں ہی گم ہو کر رہ گئیں۔ سچ ہے، لڑائی،جنگ، ہنگاموں اور فسادات میں سب سے زیادہ بچے اور عورتیں ہی متاثر ہوتی ہیں۔ رنبیر کور یا شہناز بیگم انہی میں سے ایک ہیں۔
یہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کا آٹھواں کراچی جشن ادب تھا۔ چونکہ اس اگست میں پاکستان ستر سال کا ہو جائے گا، اس لئے اس جشن میں پاکستان اور اس کی تاریخ پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ بحث میں حصہ لینے والے بھی نامور مورخ اور محقق تھے۔ جیسے پاکستان سے عائشہ جلال، سعید حسن خاں، نعمان نقوی اور ڈاکٹر اشتیاق احمد۔ اور ہندوستان سے اروشی بٹالیہ اور سدھیندر کلکرنی۔ روجر لونگ، جنہوں نے لیاقت علی خاں پر کتاب لکھی ہے، وہ بھی اس بحث میں شریک ہوئے۔ خوب کھل کر باتیں ہوئیں اس موضوع پر۔ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ 1947میں دو قوموں کی تقسیم ہوئی یا دو ریاستوں کی؟ ظاہر ہے ہر ایک کا اپنا اپنا موقف ہے اس پر۔ ایک اور موضوع جس پر بہت ہی کھل کر بات ہوئی، وہ تھا ’’پاکستان کمزور ریاست ہے یا ہر صدمہ برداشت کر جانے والی لچک دار ریاست؟؟‘‘ اس پر میاں رضا ربانی اور احمد رشید نے وہ باتیں کیں جو ہمارے اصل حکمراں سننا نہیں چاہتے۔ لیکن اس بنیادی موضوع کے علاوہ اس جشن میں کئی اور موضوع بھی زیر بحث آئے۔ کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ اردو اور انگریزی کی کتابوں پر انعام بھی دیئے گئے۔ لیکن میری سمجھ میں دو موضوع نہیں آئے۔ ایک تو ’’ادب کے ستارے‘‘ اور دوسرا ’’اردو ’’نوں‘‘ کیا ہوا؟‘‘۔ ادب کے ستارے پر چونکہ بحث میں حصہ لینے والوں کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ’’ادب کے ستارے‘‘ سے کیا کہنا مقصود ہے۔ اس لئے اس میں حصہ لینے والے اپنی اپنی کہتے رہے۔ اب رہا ’’اردو نوں کیا ہوا‘‘ تو موضوع میں اردو اور پنجابی کا ملغوبہ بنا کر مسخرہ پن تو پیدا ہو گیا لیکن اس پر ایک بھی کام کی بات نہیں ہو سکی۔ اگر وہاں عارفہ سیدہ اور افضال احمد سید نہ ہوتے تو اس اجلاس میں ایک آدھ کام کی جو بات ہو گئی وہ بھی نہ ہوتی۔ خدا معلوم یہ موضوع کس بقراط کے ذہن کی اختراع تھی؟
مگر صاحب، اس جشن کا کھڑکی توڑ اجلاس تو وہ تھا جس میں شبنم اور بشریٰ انصاری شریک ہوئیں۔ شبنم بنگلہ دیش میں رہتی ہیں۔ ایک عرصے بعد وہ پاکستان آئی تھیں۔ اور ان کے ساتھ پرانی یادیں بھی آئی تھیں۔ بشریٰ انصاری مذاق مذاق میں شبنم کو اکساتی رہیں کہ وہ اپنی پرانی یادوں میں ہمیں بھی شریک کریں۔ اور شبنم اپنی فلموں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے فلمی ستاروں کو یاد کرتی رہیں۔ ندیم کو دیکھ کر شبنم جتنی خوش ہوئیں وہ دیکھنے کے قابل منظر تھا۔ ندیم اپنی شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ شبنم کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے اور شبنم خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھیں۔ کسی نے ان سے سوال کر دیا کہ کیا وہ اب بھی پاکستانی فلموں میں کام کرنا چاہیں گی؟ انہوں نے بڑی خوشی سے آمادگی ظاہر کر دی۔ لیکن بھائی صاحب، اب وہ پرانی فلموں والی دبلی پتلی شبنم نہیں رہیں۔ اب آخر میں آکسفرڈ کے جشن ادب کا ذکر پھر ہو جائے۔ جس طرح اس جشن میں شریک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ کم سے کم کراچی میں تو یہ جشن کسی فٹ بال یا کرکٹ کے میدان میں برپا کرنا پڑے گا۔ جشن میں شریک ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔

.
تازہ ترین