• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نے کہاہےکہ اب دہشت گردی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائےگی، انکار پرمبنی جواب سن کر دہشت گرد نے اپنی درخواست اٹھائی اور مایوسی سے واپس چلا گیا..... سوشل میڈیا پر اس سنگین ہرزہ سرائی کو دہراتے ہوئےسوچ رہاتھاکہ کہیں مجھےبھی ’’قلم دراز‘‘ قرار دے بلاگرز کےساتھ ہونےوالے’’حسن سلوک‘‘ کا سامنانہ کرناپڑجائے، دل کو تسلی دی کہ اب ہماری ’’بہادر سرکار‘‘ اتنی بھی فارغ نہیں کہ دہشت گردوں کی کمر کو توڑنےکےبعد مزید اہم کاموں کی بجائےاول فول بکنےوالوں کےخلاف کارروائی پروقت ضائع کرے۔
ہمارا دکھ سانجھا ہے، ملک کےچاروں صوبوں میں دہشت گرد واقعات نے جسموں کولہولہو اور دلوں کو چھلنی کردیاہے، چند ماہ سے وزیراعظم کہہ رہےتھےکہ دہشت گردی میں 70 سے 80 فی صد کمی آچکی ہے، بعض ذمہ دار حکومتی وزراء اور قائدین تو دہشت گردی کےخاتمے کی نوید سناتے نہیں تھک رہےتھے، آپریشن ضرب عضب کےٹھیک دوسال بعد دہشتگردوں نے ’’باقاعدہ دھمکی‘‘ دے کر دوبارہ بدترین کارروائیاں کر ڈالیں، 16دسمبر 2014کے اے پی ایس پشاور کے سفاکانہ دہشت گرد حملے کےبعد کے پی گورنر ہاوس میں وزیراعظم کی قیادت میں پوری سیاسی قیادت کے ’’عزم‘‘ کے لمحات یاد آگئے، جائزہ لیا تو لگا کہ شاید وہ خواب تھا یا سراب.... پھر20 نکاتی قومی ایکشن پلان بنایا گیا، بھرپور اور فوری عمل کے ’’جذبے‘‘ کا اظہار کیا گیا، فوج نے قبائلی علاقوں سمیت ملک کے ’’سیٹلڈ‘‘ ایریاز میں فیصلہ کن آپریشنز کئے، ان نتائج وثمرات کو مستحکم اور قائم رکھنے کی ذمہ داری وفاقی وصوبائی حکومت کےسول اداروں کی تھی تاہم پانچ دن میں کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، مہمند ایجنسی اور عظیم صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کےمزار پر دہشت گرد حملوں نے کارکردگی وصلاحیت کی قلعی کھول کر رکھ دی، دہشت گردوں کی من مانی کارروائیوں کو روکنے کی کوتاہی ماننے یا راست اقدام کی بجائے ’’بیرونی‘‘ ہاتھ پر سب کچھ ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سےعہدہ برا ہونےکی کوشش کی جارہی ہے، یہ بھی سوہان روح سےکم نہیں کہ قریبی ہمسایوں سمیت پوری دنیا ہم سے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ اب دہشت گردی کی نئی لہر نے عوام کو سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ دوسال بعد 20نکاتی پلان پر عمل کاوعدہ کہاں ہے؟ عسکریت پسند گروپس کو ختم کرنے اور کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہ دینے کےعہد پر عمل کا یہ نمونہ ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور ایک کالعدم تنظیم کے فرد کو علی الاعلان ’’امن ایوارڈ‘‘ سے نوازیں؟ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو کچلنے کا جواب یہ ہے کہ ملک کے طاقتور وفاقی وزیر کہیں کہ فرقہ وارانہ تنظیموں کا دہشت گرد گروپوں سے تعلق جوڑنا درست نہیں اور ’’لاعلمی‘‘ میں ان کے قائدین سے اپنے دفتر بلا کر ملاقاتیں کریں؟ نیت اتنی صاف ہے تو انسداد دہشت گردی فورس کا قیام، مذہب کےنام پر لوگوں کو نشانہ بنانے والوں کے ہاتھ روکنے کے اقدامات، اعلانات تک کیوں محدود ہیں؟ مذہبی اقلیتوں سے اس ملک میں زندہ رہنے کا حق چھیننے والے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے کمیونی کیشن نیٹ ورکس کو تباہ کیوں نہیں کیا جا سکا؟ فرقہ وارانہ مواد اور انٹرنیٹ پر دہشت گردانہ عزائم کے اظہار کو روکنے کے لئے سفاکانہ کارروائی حکومت یا حکومتی اداروں پر تنقید کرنے والوں پر قہر بن کر کیوں ٹوٹی؟ سوال اٹھانے کے مثبت رجحانات کو پابند بنانے کے قوانین کیوں بنائےجا رہے ہیں؟ دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کی بجائے دہشت گردی کے راستے میں ’’طاقتور نیکٹا‘‘ کی مضبوط دیوار بنانے کے لئے فنڈز کیوں روکے گئے ہیں؟ مدارس ریفارمز اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی واحد ممکنہ بنیاد ’’متبادل بیانئے‘‘ کی تیاری کیوں ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکی ہے؟ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کےبقول ’’دہشت گردوں کے بیانئے کی تو حکومتی سطح پر وکالت کی جاتی ہے‘‘ دہشت گردی و عسکریت پسندی میں ملوث عناصر کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے عارضی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو چکی، اس دوران مضبوط انسداد دہشت گردی قوانین اور عدالتی نظام کی تیاری کا ایک قدم بھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ دو برسوں سے بار بار تشویش کے اظہار اور توجہ دلانے کے باوجود پنجاب میں رینجرز کو دہشت گردی کےخاتمے کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ اب دشمن کی جانب سے گھر کےصحن میں برپا کردہ کشت وخون کے ناقابل برداشت سانحےسے کیوں دل برداشتہ ہونے پر مجبور ہو کر رینجرزکی خدمات لینے کامشکل فیصلہ کیا گیا؟ آپ کے جذبوں، عہد اور دعوئوں کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ آج بھی آپ سیاسی مصلحتوں اور جمہوریت کی آڑ میں اپنے ووٹ کے مفاد کا شکار ہیں، آج بھی دہشت گردی کےخلاف Pro-active کی بجائےDefensive اپروچ ہے، ان ’’مٹھی بھر‘‘ ناپسندیدہ عناصر سے آپ آج بھی خوف زدہ ہیں، متبادل بیانیہ کی تیاری میں آپ کی عدم دلچسپی معاشرے کی بقا کی امیدوں کو مزید کم کر رہی، وقت ثابت کر چکا کہ پولیس میں اصلاحات کےسوا چارہ نہیں، کاغذی خیرخواہ شیروں کی بجائے دہشت گردوں سے لڑنے کے جذبے سے سرشار میرٹ پر دلیر اعلیٰ افسروں کا انتخاب یقینی بنائیں، اپنے عملی اقدام سےمشکل سوالوں کے جواب دینا پڑیں گے کہ برس ہا برس سے نہتے عوام اور فورسز کا بہتا انمول خون کا حساب و خراج کون دے گا؟ دہشت گردی کے خاتمے کے اقدامات ہماری ترجیح کب بنیں گے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے کہ بعض مذہبی انتہا پسند گروپس کا دہشت گرد گروپوں سے کوئی تعلق نہیں؟ اب اچھے اور برے دہشت گردوں کی تمیز ختم ہو چکی ہے؟ جی ہاں فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، مذمتی پیغامات جاری کرنے کے انتظار سے باہر آئیے، عفریت سے متحد و مضبوط ہو کر لڑنےکاحوصلہ پیدا کریں۔ عوام آپ کےہم رکاب ہیں ورنہ بقول اقبال
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

.
تازہ ترین