• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صحرائے تھر جو اپنی نوعیت کا بڑا ہی عجیب و غریب بے آب و گیاہ لق ودق صحرا ہے‘ جہاں آبادی خال خال ہے یہاں کے مرد و زن بڑی مشکل زندگی کے عادی ہیں۔ ان کی زندگی کا انحصار جانوروں کی افزائش پر ہے‘ صحرا میں ہریالی و پانی نایاب ہے۔ پینے کے لئے کنویں نما کھارا پانی وہ بھی کہیں کہیں ہے‘ تھر کے بارے میں جو خبریں پڑھتے رہے وہ بڑی دکھتی اور خراب تھیں لیکن وہاں جانے پر تھر کے لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے پر حقیقت کا ادراک ہوا۔ تھر کے مظلوم لوگوں کے نام پر وہاں کے سیاسی اکابرین اپنا پیٹ بھرنے کا بندوبست کرتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں‘ مظلوموں کے نام پر حاصل کی جانے والی امداد مظلوموں سے زیادہ خود ان کے کام آتی ہے اور مظلوم انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرز کی مجلس عاملہ کو تھر کول منصوبہ کے منتظم اعلیٰ جناب شمس الدین شیخ جن کا تعلق حیدر آباد سے ہے نے اپنے پروجیکٹ کے معائنہ کی دعوت دی۔ سی پی این ای کی مجلس عاملہ کے ارکان کراچی سے تقریباً تین سو اسی میل کا فاصلہ طے کرکے اسلام کوٹ پہنچے جہاں سے کچھ ہی فاصلے پرایک نئی دنیا آباد کرنے کی تیاری زورو شور سے جاری ہے یہاں سندھ کول کمپنی چین کے اشتراک سے ایک نئی دنیا بسانے میں مصروف ہے کوئلہ کے حصول کے لئے تقریباً ایک مربع میل رقبہ کی کھدائی کی جارہی ہے جو تقریباً اسّی گز گہری ہوچکی ہے اس سے تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر اسی کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر تعمیر ہورہا ہے جس کا تمام بنیادی کام مکمل ہوچکا ہے۔ اب عمارتی کام ہورہا ہے جو بقول منتظم اعلیٰ کے اکتوبر 2019ء تک نہ صرف مکمل ہوجائے گا اور اپنی پیداوار شروع کردے گا۔ پاکستان کے اس دور دراز علاقے تھر کے درمیان غیر آباد بنجر علاقے میں جس طرح سے رات دن کام ہورہا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بہت جلد تھر اپنی روشنی سے نہ صرف اپنے علاقے کو بلکہ سندھ کے بڑے علاقے کو سنوار دے گا۔
دو دنوں میں ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سمجھا ہے انسانی ہمدردی اور تعلق کا بھی یہاں بھرپور نظارہ دیکھنے میں آیا جب ہمیں صحرائے تھر میں ایک جگہ ایک نمونے جیسا پختہ اینٹوں سے بنا ایک بڑا اور خوب صورت گھردکھایا گیا جو تھر کے ان باسیوں کے لئے بنایا جانا ہے جن کے مکانات اور بستی کوئلے کی کان کے درمیان آرہی ہے اس بستی کو تھر کے رہنے والوں کی رضا مندی اور خواہش کے مطابق تعمیر کیا جائیگا ہر مکان تقریباً گیارہ سو مربع گز پر تعمیر ہوگا۔ اس نئی بستی کی تعمیر کا افتتاح ہماری موجودگی میں ہی خود بستی کے بزرگوں کے ہاتھوں انجام پایا جہاں ایک سو اسّی گھر تعمیر کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ اس پروجیکٹ پر تقریباً تین ہزار لوگ کام کررہے ہیں جس میں 60 فیصد تھر کے لوگ ہیں باقی چینی لوگ ہیں۔ ان کی ٹریننگ بھی کی جارہی ہے انہیں تعمیر سے متعلق مختلف ہنر سکھائے جارہے ہیں۔ پروجیکٹ کے لئے ڈرائیوروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تھر کے پڑھے لکھے انٹر پاس نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا انہیں ڈرائیونگ کی تربیت کے لئے اسلام آباد بھیجا گیا وہاں سے وہ اپنی ٹریننگ مکمل کرکے تھر میں کان کنی کے کام میں لگ چکے ہیں۔ وہ تھر جہاں کبھی مزدور کو پانچ سو روپے ماہوار بھی مشکل سے ملتے تھے اب آٹھ سو روپے روز کے علاوہ رہائش کے لئے ائیرکنڈیشن کمرے جن میں بجلی‘ ٹیلی وژن‘ گرم ٹھنڈا پانی میسر ہے اب مزدور آٹھ گھنٹے کام کرکے باقی سولہ گھنٹے ان ائیرکنڈیشن کمروں میں آرام کرتے ہیں جب یہ نئی بستیاں آباد ہوجائیں گی تو ایک نیا شہر آباد ہوجائے گا۔ ابھی منگل 14 فروری 2017ء کو سندھ کول کمپنی تھر میںعلاج معالجے کی مفت سہولتوں کے لئے انڈس اسپتال سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت عمارت اور اس کے تمام لوازمات سندھ کول کمپنی فراہم کرے گی۔ تمام دوائوں اور دیگر ضروریات کے اخراجات کمپنی ادا کرے گی علاج معالجے کی تمام تر ذمہ داری انڈس اسپتال کی زیر نگرانی ہوگی اس سلسلے میں ایک معاہدہ انڈس اسپتال کے منتظم اعلیٰ اور سندھ کول کمپنی کے منتظم اعلیٰ کے درمیان طے پاچکا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت تھر کے اس دور دراز علاقے میں فی الحال ماروی اسپتال کا انتظام انڈس اسپتال کی ذمہ داری ہوگی۔ تھرکول بلاک نمبر دو کے افراد اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے اس میں زچہ و بچہ اور دیگر امراض کا مفت علاج معالجہ ہوگا۔ تمام دوائیں مفت فراہم کی جائیں گی‘ کول کمپنی جلد ہی ایک سو بستروں کا جدید ترین اسپتال بھی تعمیر کررہی ہے جس میں ہر قسم کے جدید علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ حیرانی کی بات یہ بھی وہاں دیکھنے میں آئی ہے کہ تھر کی سیاسی قیادت جو قومی اور صوبائی سطح پر تھر کی نمائندگی کررہی ہے اسے کول کمپنی کا یہ خیراتی اور تعمیری کام ایک آنکھ نہیں بھارہا شاید اس لئے کہ کمپنی نے تھر کے نوجوانوں کو براہ راست ملازمتوں پر لگالیا اور تمام تعمیری کام براہ راست وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری سے کررہے ہیں۔ جو لوگ کل تک ان کی مرضی کے بغیر جنبش بھی نہیں کرسکتے تھے آج ان کی مرضی و منشا کے خلاف تھرکول کمپنی میں برسر روزگار ہوچکے ہیں اور پانچ سو روپے ماہانہ کی عنایت کے خلاف آٹھ سو روپے روز کمانے لگے ہیں اس طرح ان کے گھروں علاقوں میں آنے والی خوش حالی ان سے ان کے ووٹر کو بدظن بھی کرسکتی ہے۔ اس لئے وہ تھرکول کمپنی کے تعمیری کاموں کے خلاف اپنے زرخرید کارندوں سے کہیں نہ کہیں کمزور احتجاج بھی کررہے ہیں اور ان تعمیری کاموں میں اپنے اثر ورسوخ سے روڑے بھی اٹکا رہے ہیں۔
اللہ کرے کہ تھرکول کمپنی چین کے اشتراک سے جو کام کررہی ہے وہ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوجائے تو اس سے نہ صرف تھربلکہ پاکستان کو بھی بے پناہ فائدہ حاصل ہوگا۔سب سے اہم بات یہ کہ تھر جیسے بے آب و گیاہ علاقہ کے لوگوں کو ایک عمدہ روزگار مہیا ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے لئے تکنیکی مہارت کا بھی بھرپور بندوبست کیا جارہا ہے ‘ نوجوانوں کو ہر قسم کے تعمیری کاموں کی تربیت دی جارہی ہے اور ملازمت دی جارہی ہے۔ تھر جیسے بنجر غیر آباد علاقوں کو جدید بستیوں سے آباد کیا جارہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب تھر کے ہر طرح کے اندھیرے دور ہوجائیں گے اور ہر طرف ہر قسم کی روشنی علم و ہنر کی روشنی پھیل جائے گی۔ اللہ اس منصوبہ برق کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اس کی حفاظت فرمائے‘ اہل وطن کو سرخرو کرے‘ آمین۔

.
تازہ ترین