• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پرکشش مارکیٹ بن چکا، چین، بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا

فیصل آباد (رفیق مانگٹ) حالیہ برسوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک پرکشش مارکیٹ بن چکا ہے جس نے اپنے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت سمیت دنیا کی دیگر حصص مارکیٹوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کی حصص مارکیٹ کے انڈیکس میں 2009ء کے بعد سے پانچ سو فیصد کے قریب اضافہ ہوا اور گزشتہ بارہ ماہ میں 56؍ فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی عالمی مالیاتی اداروں اور ذرائع ابلاغ نے پاکستان کی معاشی کار کردگی کی مثبت عکاسی کرتے ہوئے سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کو پرکشش مقام قرار دیا ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں سے اصرار کیا ہے کہ وہ پاکستان کی حصص مارکیٹ کو ترجیح دیں، ان میں فوربز، بلوم برگ، بیرنز ایشیا، ایشین ریویو اور وال اسٹریٹ جرنل پیش پیش ہیں۔ امریکی جریدے ’فوربز‘ نے ایک بار پھر پاکستان کی حصص مارکیٹ کی کار کردگی کو سراہتے ہوئے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کی کار کردگی میں کئی سازگار معاشی عوامل شامل ہیں،ان معاشی اصولوں میں وسیع ہوتا میکرو اکنامک ماحول، بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی، گرتا افراط زر اور شرح سود شامل ہیں۔ 2016ء میں پاکستان کی معاشی نمو چھ فیصد رہی جبکہ 2015میں یہ شرح چارعشاریہ آٹھ فی صد تھی۔ افراط زر چار عشاریہ تک ہے جو چار سال قبل دس فی صد تھا۔دس سالہ ٹریژری بانڈ کی شرح آٹھ فی صد ہے جو چار سال قبل12عشاریہ 5فی صد تھی۔ اس کے ساتھ پاکستان کی حصص مارکیٹ کی اصلاحات نے بیرونی دنیا سے بھی متعد تائیدیں حاصل کیں۔ عالمی بینک کی جانب سے ایک ارب ڈالر فراہم کیے گئے اور ایم ایس سی آئی کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ انڈیکس میں پاکستانی مارکیٹ کی شمولیت ہے۔پاکستانی معیشت کی صلاحیت کے متعلق ان بنیادی اصولوں نے سرمایہ کاروں کواعتماد دیا جس سے ایکوئٹی مارکیٹ بلندیوں کو چھوسکتی ہے کس حد تک چھوسکتی ہے اس کے متعلق ابھی کہنا مشکل ہے۔ جریدے فوربز نے پاکستانی معیشت کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مارکیٹ کومتاثر کرنے والے متعدد عوامل دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں جنہیں مارکیٹ نے ماضی میں کچل دیا تھا، ان میںبڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے اس کے علاوہ مسلسل حکومتی خسارہ اور بڑ ھتا ہوا بیرونی قرضہ بھی ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کم ہونے کے ساتھ عالمی شرح سود میں اضافے کا خطرہ بھی پاکستان کی مارکیٹ کو متاثرکر سکتا ہے۔ناقص بنیادی انفرااسٹرکچر سے قیمتوں میں تیزی سے شرح سود میں اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر انحصار درآمدی تیل پر ہے جس کی قیمتیں ایک سال پہلے کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری جیسے عناصر بھی موجود ہیں، یہ سب عوامل مل کر بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ شاید پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میںاچھے دن ماضی بن جائیں۔ رواں ماہ امریکی نشریاتی ادار’بلوم برگ‘ نے لکھا کہ گزشتہ بر س دنیا میں غیر اہم تصور کی جانے والی جس حصص مارکیٹ نے بہترین کارکردگی دکھائی وہ پاکستان کی مارکیٹ ہے۔پاکستان کی اقتصادی ترقی خوشگوار حیرت میں ڈال دیتی ہے۔پاکستان کی مارکیٹ میں 46؍ فیصد اضافہ ہوا، جی ڈی پی چار فیصد ہے جو پانچ فی صد تک ہونے کا امکان ہے۔ 2002 کے بعد غربت کی شرح نصف رہ گئی۔افراط زر مسئلہ نہیں رہا، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔موقر بین الاقوامی جریدے’بیرنز ایشیا‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بھار ت کو بھول جاؤ، سرمایہ کاری کے لئے پاکستان، سری لنکا اور بنگلادیش زیادہ پرکشش مقام اور سود مند ہیں، پا کستا ن جنوبی ایشیا میں ابھرتی مارکیٹ اور سرمایہ کاری کے لئے پرکشش مقام بن چکا ہے۔ جرید ے نے لکھا کہ پاکستان کا معاشی سفر ترقی کی جانب گامزن ہے،دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستانی حصص مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔بھارت کو نظر انداز کریں اور پاکستان سمیت چالیس کروڑ کے تین ممالک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔نواز حکومت نے افراط زر پر کنٹرول کے ساتھ بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بھی کم کیا ہے۔ موجود حکومت کی مثبت تبدیلیوں سے پاکستان ایشیا کا مضبوط ملک بن چکا ہے۔
تازہ ترین