• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دشمن کا آخری دن ۔۔!!! خصوصی تحریر…محمد ناصر

سُرخ دِن سے ایک دِن قبل لوگوں کو لہو کی سُرخی میں نہلانے والے کون ہیں؟۔ یہ سوال ہم دہشت گردی کے ہر سانحے کے بعد ایک دوسرے سے کرتے ہیں، ہم صرف سوال تو کرتے ہیں لیکن ہمیں تسلی بخش جواب نہیں مل پاتا۔ ہم اب تک یہ طے نہیں کرسکے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟۔ ہم خود یا ہماری صفوں میں چھپے اپنے ہی لوگ، ہمارے جیسے لیکن ہم جیسے نہیں۔ ہم تو اپنے وطن کیلئے جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں، لیکن یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے وطن کو خون سے نہلا رہے ہیں، ہمارے گھر اُجاڑ رہے ہیں، مائوں کی گود ویران کررہے ہیں، بہنوں کے سروں سے آنچل چھین رہے ہیں، بھائیوں کو افسردہ کررہے ہیں، باپ کو آبدیدہ ہے ہیں، وطن کی مٹی گواہ رہنا، ہم تو اس مادرِ وطن کیلئے ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے ہیں مگر کیا ہماری قربانیاں رائیگاں گئیں؟یہ پھر ایک سوال ہے جس کا جواب اب ہم خود ہی تلاش کرکے چپ ہو جاتے ہیں۔ تعزیت ہوتی ہے، ریفرنس ہوتا ہے، امدادی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں اور پھر ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں جن کو سن کر ہمارے کان پکے گئے ہیں!!شہدا کے لواحقین کیلئے معاوضوں کا اعلان ہوتا ہے، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے رسمی بیانات بھی دیئے جاتے ہیں، ہر چیز اس سانحے کے بعد ویسی ہی ہوتی ہے جیسی اب تک ہوتی آئی ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نئے سانحے میں کچھ نئی جانیں چلی جاتی ہیں، کچھ نئے گھر اُجڑ جاتے ہیں، کچھ نئے خاندان غم سے گزرتے ہیں۔ حکمرانوں کی طرف سے تعزیت کا ایک سلسلہ، امدادی سرگرمیاں ، کچھ مشتبہ اور مشکوک افراد کی گرفتاریاں، کچھ چھاپے، لواحقین کیلئے امداد کا اعلان، ٹی وی ٹاک شوز میں اس سانحے سے متعلق ایک نئی تفتیش اور نئے زاویوں کی تلاش، تبصرے، تجزیئے اور قیاس آرائیاں اس واقعے کا کسی دوسرے واقعہ سے تعلق جوڑنے کی سعی لاحاصل،کچھ بھی تو نیا نہیں ہوتا۔اپوزیشن حکومت پر الزامات کی بوچھار کردیتی ہے، اِسے بے حس اور لا پروا قرار دیتی ہے، پولیس اور دیگر ادارے، تحقیقاتی و تفتیشی ایجنسیاں اور حکام کچھ دِن کیلئے سرگرم ہوتے ہیں،نامعلوم ملزمان کی گرفتاری کو بڑی کامیابی قرار دیکر بڑی بڑی پریس کانفرنس کی جاتی ہے پھر خاموشی اختیار کرلی جاتی ۔ہم کس دشمن کو تلاش کررہے ہیں؟۔ دشمن کون ہے؟۔ وہ کیوں ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے؟۔ اس کی مالی و اخلاقی، سفارتی اور لاجسٹک سپورٹ کون کررہا ہے؟۔ کئی کئی کلو وزنی بارودی مواد، آتشگیر مادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے، کون خود کش جیکٹس تیار کرتا ہے، کون پلاننگ کرتا ہے، کون ماسٹر مائنڈ ہے، کون ٹارگٹ کا تعین کرتا ہے، کیسے ایک خودکش بمبار پبلک مقام پر با آسانی پہنچ جاتا ہے، کوئی اُسے دیکھ نہیں پاتا، کوئی اُسے روک نہیں پاتا، وہ بڑی خاموشی سے اپنے ٹارگٹ تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنی جان دیکر ایک بڑی تباہی کا سبب بن جاتا ہے،وہ کیوں اپنی جان گنوا رہا ہے، وہ نوجوان کس دشمنی کا بدلہ لے رہا ہے، اس کی ہم سے کونسی دشمنی ہے، وہ کیوں ہمارے ملک کے پیچھے پڑ گیا ہے؟کیا ہمارے اعلیٰ حکام نے کبھی اِن خطوط پر سوچا، پُرامن قوم ہیں ہم کسی کا بُرا نہیں چاہتے، ہم س کے خیر خواہ ہیں، ہم نے تو ہر ایک کو پناہ دی ہے آسرا دیا، ہمت دی، حوصلہ دیا، لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملا۔؟ مگر پھر بھی ہمیں نہ تو امن ملا، نہ تحفظ، نہ زندگی کی ضمانت، بنیادی ضروریات کو تو ایک طرف رکھ دیں،اس میں سے ہم نہ روٹی، مکان اور کپڑے کے حقدار رہے اور نہ ہی حق جتانے کے قابل ۔ ہم نامعلوم دشمن کے ہاتھوں اپنے ملک کی بربادی کی تاریخ رقم کررہے ہیں، ہم گواہ بن رہے ہیں، شاید سلطانی گواہ۔۔ لیکن ہمارے ملک میں تو گواہوں کو پہلے ہی نشانہ بنادیا جاتا ہے، عام شہری تو روز ہی کسی نہ کسی واقعہ کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن گواہ تو سب کی نظروں میں کھٹکتا ہے اُسے نشانہ بنانا توآسان ہوتا ہے، اس کی گواہی مٹانا تو اور بھی آسان ہے۔ لیکن ہم اپنے ہی ملک میں تحفظ کیلئے کسے پکاریں، کسے آواز دیں؟ دشمن ہماری سرحدوں کے اُس پار ہے وہ جب حملہ کرتا ہے تو ہماری افواج سینہ سپر ہو کر اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اُسے دھول چٹاتی ہیں، اُسے کاری ضرب کا وار لگاتی ہیں اور ہم بڑے سکون سے رہتے ہیں کہ ہماری فوج سرحدوں پر چوکس ہے ، وہ دشمن پر گہری نگاہ رکھتی ہے، وہ اس کی ہر چالاکی اور ہر سازش کا جواب دیتی ہے، اسے کسی طور اپنے وطن پر میلی نگاہ نہیں ڈالنے دیتی۔ ہم سے کہیں لا پروائی، کوتاہی ہوئی ہے، ہمیں اپنے دشمن کو تلاش کرنا ہوگا، یہ دشمن ہمارا لبادہ اوڑھ کر ہمیں ہی نقصان پہنچا رہا ہے، ہماری نسلوں کو اُجاڑ رہا ہے، ہمیں دُنیا میں رُسوا کررہا ہے، ہمیں ایک غیر محفوظ ملک قرار دلانا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہمارے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہو، یہاں کوئی مثبت سرگرمی نہ ہو، یہاں عالمی کھیلوں کے مقابلے نہ ہوں، یہاں ترقی کا پہیہ جام رہے، ملک خوشحال نہ ہو اور نہ ہی اس کے شہری۔ کیا ہم ملکر اس دشمن کو شکست دے سکتے ہیں؟یہ کون لوگ ہیں، اِنہیں انسانوں کو مارنے کا سبق کون سکھاتا ہے، تباہی و بربادی پھیلانے کی تعلیم کون دیتا ہے، ابھی تو ہم ترقی کے زینے پر چڑھے ہیں، ہمیں تو ابھی اوپر جانا ہے ، تم کیوں ہمارا راستہ روک رہے ہو؟۔ تم کیوں منزل تک پہنچنے میں حائل ہو۔ہم دشمن کونیست و نابود کر دیں گے، ہمیں ایک بار سنبھلنے تو دو پھر دیکھنا جب یہ قوم متحد ہو جائے گی ، یکجاں ہو جائے گی تو پھر سمجھ لینا وہ دِن تمہارا اس مادرِ وطن میں آخری دِن ہوگا۔



.
تازہ ترین