• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس امر میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کابل حکومت کی جانب سے افغانستان میں چھپے ہوئے پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے گریز، پاکستان کے خلاف افغان صدر اور دوسرے لیڈروں کے دھمکی آمیز بیانات اور بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کا نتیجہ ہے جسے روکنے کےلئے پاکستان کی مسلح افواج نہایت موثر اقدامات کر رہی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ جب تک افغان حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر شدت پسندی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں شریک نہیں ہوتی، اس ناسور کو جڑ سے کھاڑنا آسان نہیں۔ پاکستان نے پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جو حملے اورسکیورٹی اقدامات کئے ہیں وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے الفاظ میں مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لئے کئے گئے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کابل حکومت ان اقدامات کومنطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ان میں بھرپور حصہ لیتی لیکن پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کے موجودہ ماحول میں ایسا نہیں ہوا۔ تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور عسکری رابطوں کے نتیجے میں برف پگھلی ہے اوراس سمت میں کچھ مثبت پیش رفت شروع ہو گئی ہے کابل حکومت نے صلاح مشورے کے لئے اسلام آباد میں مقیم اپنے سفیر عمر ذخیلوال کو بلایا تھا جنہوں نے واپس آکر مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور جی ایچ کیو کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور کہا ہے کہ وہ کابل سے محبت اور امن کا پیغام لے کر آئے ہیں جس سے ایک دوسرے کے تحفظات کو تعاون اور مفاہمت کے جذبے سے دور کرنے میں مدد ملے گی۔ گویا دونوں ملکوں میں کشیدگی اور تنائو ختم کرنے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ نہ صرف تاریخی مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک دو ہمسایہ برادر ملکوں بلکہ خطے کو دہشت گردی سے پاک کرکے پائیدار امن کے قیام کے مفاد میں بھی ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق افغان سفیر نے پاکستان کو 85شدت پسندوں اور دہشت گردی کے مبینہ 32مراکز کے پتے اور نقشے پاکستان کے حوالے کئے ہیں اوران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی حکام نے اس حوالے سے مثبت جواب دیا ہے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے افغان سفیر کی ملاقات میں باہمی کشیدگی جلد ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان نے بھی کابل حکومت کو 76دہشت گردوں کی فہرست دی تھی جو افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اس کے علاوہ دہشت گردوں کے ان مراکز کی بھی نشاندہی کی تھی جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ کابل حکومت نے بھی اس کا مثبت جواب دیا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی دور کرنے کی کوششوں میں چار فریقی رابطہ گروپ کا کردار بہت اہم ہے جس کی قیادت روس اور چین کر رہے ہیں۔ معاملات کو بہتری کی جانب لے جانے میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا کردار بھی لائق ستائش ہے جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر کو موجودہ صورت حال کے مضمرات سے آگاہ کیا اور انہیں افغان سر زمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی روکنے کیلئے تعاون کرنےکو کہا۔ پاکستان نے افغان سرحد پر سکیورٹی اقدامات سخت کردیئے ہیں لیکن اس کا رویہ نہایت مفاہمانہ ہے آرمی چیف نے اپنے کمانڈروں سے کہا ہے کہ وہ بارڈر مینجمنٹ کے لئے افغان سکیورٹی فورسز سے رابطہ رکھیں جی ایچ کیو میں ہونے والے ایک اجلاس میں آئی ایس پی آر کے ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے افغان سیکورٹی فورسز کے تعاون سے سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کی ہدایت کی اگر کابل حکومت بھی اسی جذبے سے ساتھ دے تو دونوں ملک دہشت گردی کی لعنت سے مکمل نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مشترکہ دشمن کو صرف مشترکہ کارروائی ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ ایسی کارروائی اب ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔

.
تازہ ترین