• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اُن لوگوں کو بہت حسرت سے دیکھتا ہوں جو روزانہ جِم جاتے ہیں، باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں، یوگا کی کلاسیں لیتے ہیں، روزانہ نصف درجن کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، بڑوں کا ادب کرتے ہیں، بچو ں سے شفقت سے پیش آتے ہیں، عورتوں کا احترام کرتے ہیں، روزانہ رات کو دانتوں کو منجن کرکے سوتے ہیں، صبح چھ بجے بیدار ہوتے ہیں، نیند پوری کرتے ہیں مگر دن میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں، متوازن خوراک کھاتے ہیں، ناشتے میں تازہ پھلوں کا رس، کھجوریں، شہد میں ڈبوئے ہوئے بادام اور دیسی انڈے کھاتے ہیں، برائلر کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے، دیسی مرغ اور بکرے کا گوشت کھاتے ہیں، کسی زرعی فارم سے خالص دودھ اور گھی منگوانے کا اہتمام کرتے ہیں، دوستوں کی محفلوں میں جاتے ہیں، گھر والوں کو بھی کوالٹی ٹائم دیتے ہیں، ہمسایوں کا خیال کرتے ہیں، رفاہی اداروں میں دل کھول کر عطیات دیتے ہیں، گھریلو ملازمین کو وہی کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں اور ویسے ہی کپڑتے انہیں دیتے ہیں جیسے اپنے لئے پسند کرتے ہیں، قانون کی پاسداری کرتے ہیں، بچوں کو روزانہ خود پڑھاتے ہیں، بیوی کو بھی شاپنگ پر لے جاتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، ہر کسی سے اخلاق سے برتاؤ کرتے ہیں، دنیا کی رنگینیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور حقوق اللہ بھی پورے کرتے ہیں......!
ممکن ہے آپ سوچیں کہ یہ تمام باتیں کم ازکم آج کل کے کسی انسان میں نہیں ہو سکتیں، ہو سکتا ہے آپ کی سوچ صحیح ہو، تاہم اگر آپ دیدہ بینا رکھتے ہیں تو ایسے انسانوں کو اپنے اردگرد ضرور پا لیں گے جو ان جملہ خصائل کو اپنی ذات میں یکجا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے میں اب حسد کرنے لگا ہوں۔ وجہ اُس کی یہ ہے کہ میں باوجود تمام تر کوشش کے یہ کام انجام دینے میں ناکام ہوں۔ ورزش کو ہی لے لیں، کوئی چار سال قبل میں نے ایک جِم کی عارضی رکنیت یہ سوچ کر لی کہ صبح صبح ورزش کے لئے جایا کروں گا، لگ بھگ تین مہینے یہ معمول رہا کہ میں روزانہ ساڑھے چھ بجے پلنگ سے چھلانگ مار کر بیدار ہوتا، سات بجے جِم پہنچتا، ایک گھنٹے تک مجھے مسٹنڈہ قسم کا نائیجیرین اذیت ناک قسم کی ورزشیں کرواتا گویا مجھے کسی عالمی مقابلے میں طلائی تمغہ جیتنے کے لئے تیار کروا رہا ہو، وہاں سے نکل کر میں گھر بھاگتا اور پھر تیار ہو کر پورے وقت پر دفتر پہنچ جاتا۔ شروع میں کچھ عرصے تک تو میں اس روٹین کی وجہ سے گردن اکڑا کر پھرتا رہا اور ہر کسی کو بتاتا:’’بس یار، صحت مند زندگی کے لئے یہ سب تو ضروری ہے ناں!‘‘ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے لاپروائی سے یہ فقرہ میں روازنہ کم از کم دس لوگوں سے کہتا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے میرا یہ جذبہ ماند پڑنے لگا، صبح کی بجائے میں نے شام کو جِم جانا شروع کر دیا، مگر شام کو اکثر کوئی مصروفیت آڑے آجاتی سو جِم کی چھٹی، پھر ماہ رمضان آ گیا، گرمیوں کے روزوں میں کسی نائیجیرین ٹرینر کی نگرانی میں ورزش کرنا ممکن نہ رہا سو ایک مہینے کے لئے خود کو بریک دی، اس کے بعد بیرون ملک جانا پڑ گیا، پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
یہی حال کتابیں پڑھنے کا ہے۔ لگ بھگ بیس برس سے ہر نئے سال کے موقع پر یہ قرارداد پاس کرتا ہوں کہ اب کی بار کم ازکم سو کتابیں چاٹ جاؤں گا، نہایت ذوق شوق سے کتاب میلوں میں بھی جاتا ہوں، وہاں سے کتابوں کی گٹھڑی سی بنا کے لے آتا ہوں، چار دن اُن کتابوں کو سرہانے رکھ کر خواہ مخواہ مسکراتا رہتا ہوں، پھر پہلی کتاب پکڑتا ہوں اُس پر اپنا نام اور تاریخ ڈالتا ہوں، خوش ہوتا ہوں، یہی سلوک دیگر کتابوں کے ساتھ کرتا ہوں، بالآخر پھر سب سے ثقیل اور علمی کتاب ہاتھ میں لے کر مطالعہ شروع کرتا ہوں ’’ابن عربی کی الفتوحات المکیہ‘‘۔ تین صفحات الٹنے کے بعد یہ بات خود کو سمجھاتا ہوں کہ ایسی کتابیں یوں رواروی میں نہیں پڑھی جاتیں، دبئی جاتے ہوئے تین گھنٹے کی پرواز میں جب کوئی کام کرنے کے لئے نہیں ہوگا تب پڑھیں گے۔ (گویا نہیں پڑھیں گے) باقی کتابیں بھی سونگھ کر دیکھتا ہوں اور بالآخر یہ عہد کر کے سو جاتا ہوں کہ کل سے پوری فہرست بنا کر ایک ترتیب کے ساتھ مطالعہ شروع کیا جائے گا اور 31دسمبر تک ہر صورت سو کتابیں پڑھ کر اُن کا خلاصہ بھی بنا لیا جائے گا تاکہ علم گھوٹ کر پینے میں آسانی ہو۔ اب کے برس بھی پوری کوشش ہے کہ وہ فہرست بن جائے تو پھر ان شاء اللہ مطالعہ بھی شروع ہو جائے گا۔ خوراک کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ کئی مرتبہ تہیہ کیا کہ برائلر نہیں کھانا، نہ جانے انہیں کیا الا بلا کھلائی جاتی ہے، بازار میں ملنے والی سبزیاں بھی نہیں خریدنی کہ اِن پر کیڑے مار ادویات کا زہریلا اسپرے کیا جاتا ہے جو انسان کا جسم گلا دیتا ہے، باہر کے مضر صحت کھانے نہیں کھانے، ہمیشہ خالص دودھ سے بنی اشیاء استعمال کرنی ہیں، دیسی بکرے کی یخنی نوش فرمانی ہے، جان ہے تو جہان ہے کا نعرہ بلند رکھنا ہے اور خالص اور دیسی خوراک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا۔ اس روٹین کا دورانیہ سب سے کم رہتا ہے، چوتھے روز ہی جذبہ ماند پڑ جاتا ہے، پہلے برائلر کی انٹری ہوتی ہے، پھر کسی ریستوران میں دعوت اڑائی جاتی ہے، اس کے بعد چل سو چل۔
مدعا بیان کرنے کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ میں اس بات کا اعتراف کر لوں کہ مجھ سے ورزش نہیں ہوتی، واک بھی نہیں ہوتی، کتابیں بھی میں اپنی مرضی کی پڑھتا ہوں جو مجھے دلچسپ لگیں اور پڑھنے پر مجبور کر دیں، کوئی مجھے کنپٹی پر پستول رکھ کر ’’کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘ نہیں پڑھوا سکتا، بھاڑ میں جائیں نقاد۔ خوش اخلاقی بھی ایک حد سے زیادہ نہیں برت سکتا، میری مرضی کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو قد آدم گالی بن جاتا ہوں، اپنا نقصان بھی کروا بیٹھتا ہوں مگر کیا کروں میں مجبور ہوں۔ اسی طرح رات کو منجن کرکے نہیں سو سکتا، صبح ناشتے میں خشک انجیر مجھ سے نہیں کھائی جاتی، مونگ کی دال بھلے صحت کے لئے اچھی ہو مگر میں چکن قورمے کو ہی ترجیح دوں گا چاہے برائلر ہی کیوں نہ ہو۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔



.
تازہ ترین