• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
14؍ فروری 2017ء، لاہور میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس، وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس میں کہا:’’دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رہیں گی، دہشت گردوں کے ساتھ ان کے سہولت کاروں اور نظریے کو بھی ختم کرنا ضروری ہے، ان کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے!‘‘
15؍ فروری 2017ء، ’’چیلنج‘‘ میں گفتگو کا اختتامیہ یہ تھا، ’’مملکت خدا داد پاکستان ناقابل بیان گہرائی پر مشتمل دہشت گردی کی قیدی ہے۔ یہ اچانک نہیں ہوا، اس کی جڑیں قیام پاکستان کے فوراً بعد ملتی ہیں، یہ درخت وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، ریاست اور سماج جب تک مکمل سچ نہیں بولیں گے اس پہ ’’مکمل عمل‘‘ نہیں ہو گا، ہماری قومی تباہی (ملک کے جغرافیہ کا اندیشہ ظاہر کرنے کو دل نہیں چاہا تھا، نہیں چاہتا:کالم نگار) کا تسلسل۔۔۔ آگے کہنے کی ضرورت نہیں!‘‘
ماضی کے ایکسرے کی ضرورت نہیں، البتہ اس کا ری پرنٹ سامنے رکھنا ناگزیر ہے، وزیراعظم کے ذہن میں یہ ری پرنٹ کہیں نہ کہیں موجود محسوس ہوتا ہے، چنانچہ گو دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے ’’قومی ریاستی بیانئے‘‘ کا بحران بدرجہ اتم جاری ہے، انہوں نے اپنے بیان میں بہر طور ’’دہشت گردوںکے ’’نظریے‘‘ کو بھی ختم کرنا ہو گا‘‘ کے الفاظ ریکارڈ پر لا کر یہ ’’قومی ریاستی بیانیہ‘‘ جاری کر دیا ہے، دائیں بازو کے دانشوروں اور لکھاریوں کو اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں وزیراعظم کے اس پیشگی اعلان کردہ ’’قومی ریاستی بیانیے‘‘ کو پروجیکٹ کرنا چاہئے تھا، کرنا چاہئے لیکن آج ان کے اس اظہار کو آٹھواں دن ہونے کو ہے، وزیراعظم کی فکر کو ان میں سے کسی نے آگے نہیں بڑھایا، کسی ٹی وی پروگرام میں دائیں بازو کے کسی نظریاتی ترجمان نے اس ’’نظریے‘‘ کی وضاحت اور تجزیہ پیش نہیں کیا، نتیجتاً وہ قومی ریاستی بیانیہ، جو ابھی ’’مملکت خداداد پاکستان‘‘ کی سطح سے جاری نہیں ہو رہا اور وزیراعظم نے اسے ماضی کی تلافی یا جرأت یا دونوں کی بنیاد پر اس کا واشگاف اور برملا لب و لہجے میں بیان کر دیا، پاکستانی قوم کے ذہنوں کی تختی پر مدہم پڑ گیا۔
دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی یہی وہ ’’ناقابل بیان گہرائی‘‘ ہے جس کا گزشتہ ’’چیلنج‘‘ کا حوالہ دے کر آغاز میں ذکر ہوا ہے، مقتدر ترین پاکستانی دانشور نجم سیٹھی نے نہایت بے باکی کے ساتھ اس گہرائی کی اصل اور متوقع نتیجے سے آگاہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:۔ ’’اس صورتحال پر معروضی انداز میں کیا جانے والا غیر جذباتی تبصرہ کہتا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ بھارتی جارحیت کا تدارک کرنے اور افغانستان میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے ماضی میں پاکستان کی مجاہدین اور افغان طالبان کو استعمال کرنے کی پالیسی تھی، اس کی وجہ سے افغانستان برباد ہو گیا اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے انتہا پسندوں کی سرپرستی شروع کر دی، چنانچہ پاکستان کی سلامتی کو انتہا پسندوں اور غیر ریاستی عناصر سے شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے کیونکہ یہ بہت فعال اور زیرک دشمن کے ہاتھوں میں پراکسی دستے بن چکے ہیں، نیشنل ایکشن پلان چاہے اس پر حکومت اور سیکورٹی ادارے پوری توجہ اور خلوص سے عمل کیوں نہ کریں، اس خطرے کا تدارک کرنے میں بے بس ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم داخلی طور پر انتہاء پسندی کو ختم کریں جو کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے، بیرونی طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ امن یا جنگ دونوں ناممکن ہیں!‘‘
پاکستان ’’ناقابل گرفت خونریز ابتری‘‘ کے شکنجے میں بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے، ’’سندھ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کھلے بندوں صوبے میں جو چاہا، جس طرح چاہا، جب چاہا، جس طریقے سے چاہا، جس کے سلسلے میں چاہا، وہ ببانگ دُہل کیا، پنجاب میں رینجرز اولاً آتے آتے آئی اب جو آئی یا لائی گئی وہ صوبائی حکمرانوں کے زیر سایہ ریاستی کلچر کی پابند ہو کے کارروائیاں کر سکے گی بصورت دیگر رینجرز کو دانتوں پسینہ آ سکتا ہے‘‘ ، اس قسم کے خیالات اس ’’ناقابل گرفت خونریز ابتری کے شکنجے‘‘ کے تناظر میں قطعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتے، نہ اب پاکستان کے پاس ایسے آپشنز پر کھیلنے کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے، حکمران، ریاستی فورسز، ان فورسز کے طاقتور سربراہ، عطائے کرام، دائیں بازو کے دانشور، افغانستان اور کشمیر میں مجاہدین کی تاریخ کے مورخ سب بیشک جو کہتے یا اب بھی جو کہتے رہیں پاکستان کی قومی اور جغرافیائی سلامتی کو اس ’’ناقابل بیان خونریز گرفت‘‘ سے چھڑانے کی ہمارے پاس ایک ہی راہ باقی بچی ہے ۔
یعنی وزیراعظم پاکستان کا قومی اعلامیہ ’’دہشت گردی کے نظریے کو ختم کرنا ہو گا‘‘ وہ ’’نظریہ‘‘ کیا ہے، بس اس کا سامنے لانا ’’ون ملین ڈالر‘‘ کی شکل ہے، پاکستان کی سلامتی اس کی شکست میں پوشیدہ ہے، باقی سب تاریخ ہے!
وزیراعظم پاکستان نے جس ’’نظریے‘‘ کے اختتام کو پاکستان کی قومی اور جغرافیائی سلامتی کے لئے لابدی قرار دیا اسی نظریئے کے برگ دیار، سرخیلوں اور وجود نے کس کی طے کردہ ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ (تزویراتی گہرائی) سے کب جنم لیا یا ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو سروسز کئے جانے کے بعد، کونسا راستہ پاکستان کے دشمنوں اور ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں کے لئے آسان ہو گیا، یہ سوالات البتہ تاریخ نہیں بن سکتے، پاکستان اور پاکستانی قوم کو ان کا جواب دینا پڑ رہا ہے، یہ جواب ہمارے لئے خون کے دریائوں کی روانی سے کم پہ مکمل نہیں ہو پاتا، اس لئے واحد آپشن یعنی وزیراعظم کے اس ’’مکمل سچ‘‘ کو وہ آشکار کریں جنہوں نے ایسی ناقابل گرفت خونریز ابتری کے بیج بوئے تھے، قوم تو لہو کا خراج پیش کر ہی رہی ہے۔



.
تازہ ترین