• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ بھاری توپ خانہ پاک افغان سرحد پر دونوں جانب سے پہنچا دیا گیا ہے۔ بارڈر کے قر ب و جوار میں رہنے والے ہزاروں افراد جنگ کے خوف سے دوسرے علاقوں میں ہجرت کر گئے ہیں۔ دو ہزار چودہ کی واشنگٹن کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق افغان فوج میں ایک لاکھ 69ہزار 213اہلکار شامل ہیں۔ جن میں سے چالیس ہزار لوگ فوج چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ہرسال افغان فورس کو چھوڑنے والوں کی شرح 8.5ہے۔ خدانخواستہ اگر جنگ ہو گئی تو اس وقت افغان فوج کے علاوہ دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ وہ بھی اُس میں شریک ہونگے کیا ٹرمپ انتظامیہ اپنے اور فوجی دستے افغانستان بھجوائے گی۔ ویسے اس بات کا امکان بہت کم ہے مگر اس بات کا امکان قوی ہے کہ اگر شمال مغربی سرحد گرم ہوئی تو بھارت مشرقی سرحد کو بھی سرد نہیں رہنے دےگا۔ افغانستان کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردی کرنے والے پچاسی افراد اور بتیس مراکز کی ایک فہرست پاکستان کو بھی بھجوائی گئی ہے پاکستان نے ان کے خلاف بھی کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال سامنے آتا تھا کہ یہ فہرست اگردرست ہے تو امریکہ نےان مراکز پر ڈرون حملے کیوں نہیں کئے تھے جب پاکستان نے اسےدہشت گردوں پر ڈرون حملوں کی کھلی اجازت دے رکھی تھی۔
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ اقوام متحدہ نے پاک افغان کشیدگی کم کرنے کیلئے اپنا خصوصی نمائندہ اسلام آباد بھیجا ہے۔ یہ وہی افغان ہے جسکے بارے میں اقبال نے کہا تھا (او غافل افغان۔ اپنی خود پہچان )اس کشیدگی کو کم کرنے کا کردار تومحمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن کو ادا کرنا چاہئے تھا۔ اسفندیار ولی خان نے اس کشیدگی کو کم کرانے کیلئے کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لگتا ہے ان کے امریکہ اور افغانستان کی پاکستان مخالف حکومت کیساتھ اچھے مراسم ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جب تک بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان پر قائم ہے یہ کشیدگی کم نہیں ہوسکتی۔ پاکستان نے افغانستان میں جن دہشت گردوں کو ٹارگٹ کیا وہاں ان کی سرپرستی بھارتی قونصل خانے کر رہے ہیں۔ ملا فضل اللہ کا مستقلاً قیام پاک افغان سر حد کے قریب ایک بھارتی قونصل خانے میں ہے۔
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ پنجاب میں رینجرز کو آپریشن کیلئے کراچی سے زیادہ اختیارات دئیے گئے ہیں اور اس کی مدت میں جب تک ضرورت رہے گی توسیع کرتے رہیں گے۔ یہاں دو سوالوں نے جنم لیا ہے ایک تو یہ کہ ماضی میں کیا جانے والاپنجاب حکومت کا یہ دعویٰ کیا غلط تھاکہ پنجاب میں ایسی صورت حال قطعاً نہیں کہ رینجرز کو بلایا جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا رینجرز پنجاب میں بھی کراچی کی طرح دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کے خلاف بھی کارروائیاں کرے گی جس طرح کراچی میں چائنا کٹنگ کے خلاف رینجرز نے کارروائی کی۔ کیایہاں بھی ایسی کارروائیاں ہونگی۔ عام انتخابات سے دو دن پہلے جو لاہور ایل ڈی اے کے پلازے میں ایک پراسراراور جان لیوا آگ لگ گئی تھی کیا رینجرز اس کی بھی تحقیق کرےگی کہ ایل ڈی اے پلاٹوں کی غیر قانونی تقسیم سے کمائے جانے والےسرمائےسےدہشت گردی کو فروغ ملا۔ ویسے کسی بھی غیر قانونی دولت کو دہشت گردی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ بہر حال پنجاب میں رینجرز کی آمد رینجرز کےلئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔
کیا یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں پر یہ الزام لگایا جائے کہ انہوں نے وہ دہشت گردجنہیں ملٹری کورٹ کے سوا کہیں سزا دینا ممکن نہیں تھاانہیں دہشت گردی کے مبینہ جعلی مقابلوں میں گولی مار دی ہے۔ ایسے الزامات لگانے والے لوگ اپنے سینوں میں دہشت گردوں کیلئے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہمیں صرف دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں سے نجات حاصل کرناضروری نہیں۔ انکے ہمدردوں سے بھی اس ملک کی سر زمین کوپاک و صاف کرنا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے کھلے ہمدرد بہت سے مذہبی رہنماہیں۔ جن کی تقاریر ثبوت کیلئے موجود ہیں۔ مگرجب خود وزیر داخلہ ہی ان کی شان میں رطب اللسان دکھائی دیں توان کے خلاف کوئی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے۔ جن مذہبی مراکز میں دہشت گردی کے حق میں جواز فراہم کئے جاتے ہیں کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ جرمنی کے شہر میونخ میں جاری سیکورٹی کانفرنس میںوزیر دفاع خواجہ آصف نے حافظ سعید کو معاشرے کےلئے خطرناک قرار دے دیا ہے۔ اور بتایا کہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھافورتھ شیڈول انیس سو ستانوے کے ایکٹ کے تحت ممکنہ دہشت گردوں کی ایک فہرست کا نام ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نےکچھ دن پہلے بتایا تھا کہ حافظ سعید کو اس لئے نظر بند کیا گیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ حافظ سعید کے بارے میں بدلتے ہوئے حکومتی رویے سے بہت سارے سوال جنم لینے لگے ہیں۔ فورتھ شیڈول کے بہت سے اور اہم نام تو پاکستان میں تقریریں کرتے پھرتے ہیں۔ ایک کالعدم تنظیم کے رہنما کا نام بھی فورتھ شیڈ ول میں شامل ہے۔ انہیں تو معاشرہ کیلئے خطرناک قرار دیکر نظر بند نہیں کیا گیا۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حافظ سعید پر الزام بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی کاہے سو انہیں نظر بند کردیا گیا۔ جبکہ کالعدم تنظیم کے رہنما پر الزام پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی سر پرستی کاہے مگر انہیں ہر طرح کی آزادی ہے؟۔



.
تازہ ترین