• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ اپنی انتہائی کسمپرسی میں شروع ہونے والی زندگی کو بے انتہا محنت اور جفا کشی سے معاشی آسودگی کی انتہا تک لایا تھا آٹھ سال کی عمرسے شروع کی جانیوالی محنت کی زندگی اب اٹھاون برس کی ہوچکی تھی آٹھ سال کی عمر میں اس کا اور اس کے اہل خانہ کا شمار شاید شہر کے غریب ترین افراد میں ہوتا ہوگا تاہم اب اٹھاون برس کی عمر میں وہ شہر کے آسودہ حال افراد کی فہرست میں اولین سطح پر تھا،صبح چار بجے اس کے دن کا آغاز ہوتا اور رات گئے وہ اپنی مصروفیات سے فارغ ہوتا،زندگی بھر اس کا یہی معمول تھا تاہم سخت محنت اور حد سے زیادہ سگریٹ نوشی نے اس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا تھا ا س روز بھی وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے پر مدعو تھا کھانا شروع ہونے سے قبل اس نے سگریٹ نوشی کی جگہ تلاش کی اور کچھ دیر بعد کھانے کی میز پر واپس آگیا، کھانے کا پہلا لقمہ لیتے ہی سینے میں درد کی ایک شدید لہرنے اسے کرسی سے گرادیا مہمانوں نے فوری طور پر ایمبولینس کو کال کی اور اسے سنبھالنے کی کوشش میں لگ گئے لیکن وہ تو کسی دوسری دنیا میں آچکا تھا گزشتہ اٹھاون برسوں میں کبھی اسے پلٹ کر ماضی میں جھانکنے کاموقع ہی نہ ملاتھا، اب اچانک اسے اپنا بچپن آنکھوں کے سامنے گھومتا محسوس ہورہا تھا، جب آٹھ برس کی عمر میں اس نے گھر کی غربت کو محسوس کیا،وہ نو بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا لیکن شاید سب سے زیادہ حساس تھا وہ کھانے کے وقت دستر خوان پر بہت ہی کم کھایا کرتا تاکہ دوسرے بھائی بہن پیٹ بھر کر کھاسکیں، اسے آٹھ سال کی عمر میں اسکول کے اساتذہ سے کتابیں اور کاپیاں نہ ہونے، یونیفارم کے بغیر اسکول جانے اور کئی ماہ تک فیس جمع نہ کرانے کے سبب ڈانٹ سہنا پڑتی تو گھر آکر والدین کو بھی نہ بتاتااور پھر ایک دن خود ہی اس نے والد سے اسکول چھوڑ کر نوکری کرنے کی ضد کی تاکہ گھر کا بوجھ اٹھانے میں والد صاحب کا ہاتھ بٹا سکے، اس کی ضد کے آگے والدین نے ہار مان لی اور اسے پوسٹ آفس میں عارضی ملازمت دلوادی گئی، وہ خوشی سے اپنا بچپن اپنے گھر والوں کے لئے قربان کرنے پر تیار تھا، اکثر وہ صبح جلدی گھر سے نکل جاتا تو والدین کو بھی حیرانی ہوتی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بس کے پیسے بچانے کے لئے دفتر پیدل ہی چلا جاتا ہے،وہ رمضان کے مہینے میں سحری کے لئے ملنے والا کھانا بھی آدھا کھاتا اور آدھا ساتھ لے جاتا اور شام میں افطار بھی اسی سحری کے بچے ہوئے کھانے سے جان بوجھ کر دفتر میں ہی کرلیتا کہ گھر میں دیگر گھر والوں کے لئے افطار میں کمی نہ ہوجائے،وہ تعلیم کی اہمیت سے بھی واقف تھا لہٰذا گھر میں کسی بھی بہن بھائی کو تعلیم ادھوری چھوڑنے نہ دی،وقت تیزی سے گزرتا رہا حالات بھی بدلتے رہے تمام بہنوں کی شادیاں اچھے طریقے سے کی گئیں،تمام بھائی اعلیٰ تعلیم مکمل کرکےاعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے، گھر کے حالات تبدیل ہوگئے، لیکن گھر والوں کے لئے اپنا بچپن قربان کرنے والا اشفاق احمد ملازمت سے کاروبار اور پھر کاروبار سے بڑے کاروبار کرتا رہا، وہ ذوالفقار بھٹو کا عاشق تھا ان کے ساتھ سیاسی جدو جہد میں بھی شریک رہا، پھر بھٹو کی پھانسی نے اس کی زندگی تبدیل کردی، اس نے بھٹو کےہیئراسٹائل کو آج تک اپنائے رکھا جبکہ بھٹو کی محبت میں کبھی اس نے اپنی آستین کے بٹن بند نہ کیے، لیکن بھٹو کی وفات کے بعد اس نے سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا، اسے جاپان سے شرو ع سے ہی محبت تھی، وہ جاپان کی ترقی سے بہت متاثر تھا، اسے جاپانی قوم کی محنت، ترقی اور وقت کی پابندی بہت پسند تھی، وہ اکثر جاپانی قوم کی ترقی کے حوالے سے کتابوں کا مطالعہ کرتا اور خود بھی ان جیسا بننے کی کوشش کرتا، پھر ایک روز اسے جاپانی کمپنی کے ساتھ کاروبار کا موقع ملا جہاں اس نے اپنی محنت،ایمانداری اور وقت کی پابندی سے جاپانی افسران کو اپنا گرویدہ بنا لیا، اسے جاپانی کمپنی کے لئے ہزاروں ملازموں کی فراہمی کا ٹھیکہ مل گیا، وہ ہر روز صبح چار بجے جاپانی کمپنی کے دفتر میں موجود ہوتا اور دن بھر اپنی نگرانی میں تمام معاملات دیکھتا۔ د و دہائیوں تک اشفاق احمد بھرپور محنت سےتمام معاملات انجام دیتا رہا لیکن اب اس کی صحت جواب دے گئی تھی، اسے مذہب سے بھی بہت لگائو تھا،کئی دفعہ حج اور عمرے کی سعادت بھی حاصل کرچکا تھا تاہم وہ جب بھی حج یا عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جاتا وہاں وہ لازمی مسجد جن میں نماز کی ادائیگی کے لئے جاتا اور دنیا بھر کی دعائوں کے ساتھ ساتھ جنوں کی سلامتی اور ان کی مغفرت کے لئے بھی دعائیں کرتا،اس کا کہنا تھا کہ دنیا میں جتنی تعداد انسانوں کی ہے اس سے زیادہ تعداد جنوں کی ہے لہٰذا اگر ہم ان کی مغفرت اور سلامتی کے لئے دعائیں کریں گے تو وہ بھی ہمارے لئے کریں گے، اپنی زندگی کا ایک مکمل جائزہ لینے کے بعد اچانک ہی وہ دنیا میں واپس آیا، اس نے اپنے آپ کو کراچی کے ایک معروف اسپتال میں پایا، ڈاکٹروں اور طبی عملے نے اسے چاروں طرف سے گھیر اہواتھا شاید اس کے آپریشن کی تیاری کی جارہی تھی، اس کے سینے میں اب بھی درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں، اسے اچانک اپنے بچوں کا خیال آیا جن کی تعلیم ابھی جاری تھی کسی کی شادی بھی نہیں ہوسکی تھی، اس نے ایک بارپھر آنکھیں بند کیں اور دعا میں مصروف ہوگیا وہ بارگاہ الہٰی میں دنیا میں رہنے کے لئے مزید وقت مانگ رہا تھا، پھر اسے کچھ یاد نہ رہا، ایک بارپھر اس کی آنکھیں کھلیں وہ اسپتال کے بیڈ پر موجود تھا، دو دن گزر گئےتھے اس کا بائی پاس آپریشن کیا گیا تھا،ڈاکٹروں نے اسے نئی زندگی کی مبارکباد پیش کی، اشفاق احمد آج پینسٹھ برس کی عمر میں ایک بار پھر مصروف زندگی گزار رہے ہیں لیکن اب وہ پاکستانی بچوں کو جاپانی زبان سکھانے کا ادارہ چلا رہے ہیں، یتیم بچیوں کی شادیاں کرانے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں، غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے میں خاموشی سے کردار ادا کررہے ہیں اور اپنی زندگی سے مطمئن ہیں، ان کا صرف ایک ہی پیغام ہے کہ تعلیم ایک دولت ہے اور معاشرے کا ہرفرد یہ دولت حاصل کرسکتا ہے،اور جس نے تعلیم کی دولت حاصل کرلی دنیا کی دولت خود اس کے پیچھے آتی ہے۔



.
تازہ ترین