• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپین کے شہر ’’پالما دے مایورکا‘‘ کی ایک عدالت میں ٹیکس چوری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس شروع ہوتا ہے، ملزم ہسپانوی شہزادی ’’کرسٹینا‘‘ اور اُس کا شوہر ’’اینکی اردانگرین‘‘ ہیں، شاہی داماد ہسپانوی ہینڈ بال ٹیم کا قومی کھلاڑی اور سابق اولمپین بھی ہے۔ دونوں میاں بیوی سرکاری طور پر شاہی لقب کے مالک ہیں۔ یہ شاہی جوڑا سال بھربالکل عام شہریوں کی طرح عدالت میں تاریخوں پر پیش ہوتا ہے بغیر کسی پروٹوکول کے۔ شاہی داماد پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے لیکن ٹیکس کم دیتا ہے۔ ٹیکس کم بتانے والا شاہی داماد ہے اس لئے شہزادی جو موجودہ بادشاہ فلپ اے ششم کی بہن ہے وہ اپنے شوہر کے کاروبار میں اپنا شاہی اثرو رسوخ استعمال کرتی ہے۔ ٹیکس چوری کامقدمہ چلتا ہے، بحث ہوتی ہے اور ججوں کا پینل شاہی داماد کو تین سال تین ماہ جیل کی سزا سنا دیتا ہے، چونکہ شہزادی نے اپنے شوہر کا ساتھ دیا ہے اس لئے اسے 2لاکھ 65ہزاریوروز جرمانہ کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے آنے پر شاہی محل سے صرف ایک بیان جاری ہوتا ہے کہ ہم عدالتی فیصلے کا احترام کریں گے۔ جب اسپین کے عوام جدید تاریخ کی بدترین کساد بازاری کا سامنا کر رہے تھے تو وہ چہ میگوئیاں کرتے تھے کہ شاہی خاندان ہر قسم کے معاملات سے بالاتر ہے۔ ہسپانوی عوام سمجھتے تھے کہ اسپین کے سابق بادشاہ ’’کارلوس اوّل‘‘ اور موجودہ بادشاہ فلپ اے ششم سے رشتہ داری کی بنیاد پرشہزادی اور اُس کے شوہر نے اپنے کاروباری معاملات کو وسعت دی ہے،اور اسی رشتہ داری کی وجہ سے موجودہ بادشاہ کے بہنوئی نے ٹیکس چوری کی اور شاہی جوڑی اختیارات کے ناجائز استعمال اور بد عنوانی کی مرتکب ہوئی، عوام یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ کا خاندان جو چاہے کر سکتا ہے، لیکن یہ بات محض ایک خیال ثابت ہوئی۔ عدالت میں سزا سناتے وقت ججوں نے بتایا کہ ملزم شاہی جوڑا اپنے ایک فلاحی ادارے ’’نوس فاؤنڈیشن‘‘ کے ذریعے اپنے اثاثہ جات بڑھاتا رہا۔ شاہی خاندان کا انصاف دیکھئے کہ جب شہزادی اور اس کے شوہر پر مقدمے کی پیروی عدالت میں شروع ہوئی تو ہسپانوی بادشاہ نے اپنی سگی بہن اور اُس کے شوہر سے شاہی لقب واپس لے لئے۔ اسپین کے سابقہ بادشاہ کارلوس اوّل اپنی بیٹی اور داماد پر دائر ہونے والے مقدمے کی ندامت کے باعث اپنا اقتدار اپنے بیٹے کو سونپ دیتا ہے تاکہ عوام کے کسی فرد کو یہ شک نہ گزرے کہ بادشاہ اپنی بیٹی کیلئے کسی معاملے میں اثر انداز ہوگا۔ موجودہ جمہوری دور میں اسپین کے عوام کیلئے یہ عدالتی فیصلہ مشعل راہ ہے،اب ہر عام شہری کوئی بھی جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا،کہ اگر شاہی خاندان سے رشتہ داری بھی شہزادی کرسٹینا اور اُس کے شوہر کو سزا سے نہیں بچا سکی تو عام شہری کو رعایت ملنا کیسے ممکن ہوگا؟ چلیں اب ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کرتے ہیں جس کے مختلف شہروں میں ہونے والے بم دھماکوں نے بہت سی ماؤں کی گودیں اُجاڑیں، بچوں کو یتیم کیا اوروالدین سے اُن کی اولادیں چھین لیں،دہشت گرد پکڑے گئے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گرفتاریاں ہوئیں، پاکستان کے سیکورٹی ادارے حرکت میں آئے اور ملک دُشمن عناصر کی گردنوں کو دبوچنا شروع کر دیا۔ ٹی وی چینلز پر سہولت کاروں کو بیانات دیتے ہوئے دکھایا گیا،بہت سے دہشت گردوں اور سہولت کاروں پر مقدمات درج ہوئے، پاکستان کی جیلوں میں پہلے سے موجود ہزاروں دہشت گرد سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے باوجود پھانسی نہیں چڑھے، عدالتوں میں دہشت گردوں کے مقدمات التواکا شکار ہیں، کئی دہشت گردوں پر ہونے والے مقدموں کی انکوائری کیلئے عدالت کو خود جیل جانا پڑتا ہے،کبھی دہشت گردی ہونے پر ہمسایہ ممالک کی حکومتوں سے شکوہ کیا جاتا ہے اور کہیں دہشت گردوں پر باقاعدہ بمباری کی جاتی ہے،قانون نافذ والے ادارے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے دن رات کارروائیوں میں مصروف ہیں،ان اداروں کے کام سے عوام مطمئن ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کش بمبار جب دھماکا کرتا ہے تو اُس سے پہلے وہ مرنے والوں سے مذاکرات نہیں کرتا، دھماکا کرتے وقت نہ تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس بم کی زد میں بچہ آئے گا، بڑا یا خواتین، پولیس والے ہونگے یا پاک آرمی کے جوان، عام شہری ہوں گے یا ایک ماہ بعد دلہن بن کر اپنی نئی زندگی شروع کرنے والی فاطمہ جمشید ہوگی،دہشت گرد اپنے گروپ اپنی جماعت کے ساتھ معاہدہ کرکے آیا ہوتا ہے اُس نے صرف کارروائی کرنا ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں کہ جب دہشت گرد کوئی رحم نہیں کرتا تو ہماری حکومت کی طرف سے دہشت گردوں کیخلاف فوری کارروائی کیوں نہیں کی جاتی، جس جگہ دہشت گردی ہوتی ہے وہاں سہولت کاروں کو سر عام پھانسی کیوں نہیں دی جاتی؟ جیلوں میں بند دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے میں سست روی کیوں اختیار کی جا رہی ہے، کس کا ڈر ہے؟ حکومت سے بڑھ کر طاقتور ملک میں کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ کیا پھانسیاں دینے کیلئے ’’پھندے‘‘ ناپید ہو گئے ہیں؟ یا دہشت گردوں کے خوف سے ہمارے حکمران فوری فیصلہ لینے سے قاصر ہیں؟ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ ہم رشتہ داری، تعلقات، اختیارات اور دوسرے ہتھکنڈوں کی پروا کئے بغیر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اب وقت ہے قانون کی حکمرانی منوانے کا، اب وقت آگیا ہے انصاف کا بول بالا کرانے کا، اب وقت آگیا ہے بچوں، عورتوں اور پاکستانی بزرگوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کا، کیونکہ اب دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو مہلت دینا ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے جس کا خمیازہ سماجی، ثقافتی اور مالی طور پر پاکستانی قوم کو مزید بھگتنا پڑے گا۔ جس طرح اسپین کے بادشاہ نے رشتہ داری کو عدالتی فیصلے میں حائل نہیں ہونے دیا اسی طرح پاکستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے کسی قسم کے تعلق کوعدالتی احکامات کے راستے کی رکاوٹ نہ بننے دے کیونکہ پاکستان کی سا لمیت اور ترقی دہشت گردی کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔



.
تازہ ترین