• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیبیہ کیس میں اپیل نہیں کرونگا، چیئرمین نیب پھر نتائج بھگتیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں) پاناما کیس میں اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں، عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اختیار استعمال کیا۔ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا، فیصلے سے تمام ارکان پارلیمنٹ متاثر ہونگے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے وفاق نے عدالت کا دائرہ اختیار چیلنج کر دیا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہم پہلے ہی کرچکے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔چیئرمین نیب نے کہا نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے، جس پر جسٹس گلزار احمد نے عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں، جسٹس کھوسہ نے کہا نیب کا قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتاہے،یہ ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا؟ قطری خط والا تو نہیں ۔ دوران سماعت چیئرمین ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ پاناما معاملہ سامنے آنے پر فوری اقدامات نہیں کئے، چیئرمین نیب نے کہا کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے کارروائی کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اپنے خیالات پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پر اپیل دائر نہیں کروں گا،جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب، اب آپ کو اس کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے، فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ7گھنٹوں کے کام میں چیئرمین ایف بی آرنےایک سال لگادیا، ایف بی آر جو کچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے منگل کوکیس کی سماعت کی تو عدالت کے پچھلے حکم کی روشنی میں ایف بی آر ڈاکٹر ارشاداور نیب کے چیئرمین چوہدری قمرالزمان عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت کے سوالات پرچیئرمین یف بی آر نے تسلیم کیا کہ ان کے ادارہ کی جانب سے پاناما پیپرزسامنے آنے پر فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ جسٹس کھوسہ نے ان سے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا کیا کردار ہے؟ آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں یہ تو طے ہے۔جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پاناما ٹیکس چوروں کی جنت ہے، پاناما کا معاملہ سامنے آنے پر وزارت خارجہ کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی ہے، تاہم ہمارا متعلقہ ملک کے ساتھ اس حوالہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ ایف بی آر نے پاناما کے معاملے پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیاتھا؟ ایف بی آرکا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر ہے اسے رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے۔ایف بی آر نے پاناما لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے تھے؟چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ستمبر 2016 کو343 افراد کو نوٹسز جاری کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ12افراد دنیا میں نہیں رہے،39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں،52 افراد نے آف شور کمپنیوں سے ہی انکار کیاہے جبکہ 92افراد نے آف شور کمپنیوں کو تسلیم کیاہے۔جسٹس آصف سعید کھو نے کہا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کس کس کا جواب آیا؟چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جوابات دیئے ہیں۔مریم نواز نے کہا ہے کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ کیا مریم نواز نے اپنے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا ہے؟چیئرمین نے کہا نہیں۔ نومبر 2016 کو شریف فیملی کے بچوں کا جواب موصول ہوا تھا۔حسین نواز نے کہا کہ دسمبر2000ء سے بیرون ملک مقیم ھیں۔جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حسین نواز نے صرف بیرون ملک مقیم ہونے کا دفاع لیا ہے اور ان کے جواب کے بعد آپ نے فائل بند کردی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ حسین نواز کے نیشنل ٹیکس نمبر کی تصدیق کرتے ہیں تو چیئرمین نے کہا کہ حسین نواز کا این ٹی این درست ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2002 کے بعد پرانے این ٹی این نمبر منسوخ ہو گئے تھے،کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا ہے؟چیئرمین نے کہا کہ ریکارڈ سے چیک کرکے ہی بتا سکتا ھوں۔جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اپنے اقدامات کو ریکارڈ سے ثابت کریں۔چیئرمین نے کہا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ لگتا ہے آپ کو تصدیق کے لیے مزید30 سال درکار ہیں؟جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر نے گھنٹوں کے کام پر ایک سال لگا دیا گیا ہے۔ایف بی آر جو کچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے ،کون کب سے بیرون ملک ھے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا تھا؟ریکارڈ دکھائیں؟ جس پر ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ اس وقت ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم 39 آف شور کمپنیوں کے مالکان کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے الزام میں بینکوں کا استعمال ہوا ہے۔ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ فوری اقدامات نہیں کیے گئے ہیں،ہمارے سامنے ایک ایشو یہ بھی تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے،جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ کو تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے؟ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ اگرکوئی ریاستی ادارہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دیتاتو کیس عدالت میں ہی نہ آتا،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو فوری طور پرایکشن لینا چاہیے تھا،جہاں کارروائی کرنی ہوتی ہے ایف بی آر فوری کاروائی کرتا ھے،جس پر فاضل کیل نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے حوالہ سے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں،جسٹس گلزار نے کہا کہ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کچھ نہیں کیا ہے۔ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ پاناما تحقیقات کا ریکارڈ پبلک نہیں کرنا چاہتے ہیں اس سے تحقیقات متاثر ہوسکتی ہے،تاہم عدالت کو ریکارڈ فراہم کیا جا سکتا ھے۔ دوران سماعت چیئرمین نیب چوہدری قمرالزمان پیش ہوئے اورعدالت کے استفسار پر موقف اختیار کیا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کرتے ہیں۔نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ جس پرجسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ پانامل کا معاملہ انکے دائرے میں نہیں آتا؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا یہ نیب کا موقف ہے کہ ریگولیٹر نہیں آیا اس لیے آف شور کمپنیوں کیخلاف کاروائی کا اختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کیانیب کے قانون میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے؟کیا نیب کو کوئی اور ریگولیٹ کرتا ہے؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے،جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ قانون چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے،لیکن یہ ریگولیٹر کی بات کرتے ہیں۔ نیب کا ریگولیٹر کون ہے،ہم نہیں جانتے۔ جو بات چیئرمین نیب کررہے ہیں ایسی باتیں قطری خط میں تھیں، قطری خط میں بھی ریگولیٹر کی بات کی گئی تھی، پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر ڈار نے کہا کہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بنک کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بجلی اور گیس کے ریگولیٹر تو موجود ہیں آج نیب کے ریگولیٹر کا بھی پتا چل گیا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیاریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین نیب کو تعینات کرتا ہے؟ جسٹس گلزارنے کہا کہ نیب کا موقف سن کر افسوس ہواہے۔پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں، عدالت کو گمراہ نہ کریں،جس پر فاضل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اپنی زندگی میں کبھی عدالت کو گمراہ نہیں کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں ہے تو آخر کس کے پاس ہے؟ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ ادارے کام کرتے تو آج اس کیس پر اتنا وقت نہ لگتا، چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا ہے،میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی انہیں نہیں ہٹا سکتے ہیں،اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک سال گزر گیا ہے لیکن نیب نے کچھ نہیں بھی کیا ہے ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری تو کرتا ہی ہے، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھ ہی لیتے ،کیا کسی ایک بندے سے بھی پوچھا ہے کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا تھا؟ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں،لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا تو پھر بھی مواد موجود تھا۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے بنک اکائونٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی ہے؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کرینگے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے، سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ پانامہ لیکس میں نیب قانون کے مطابق کاروائی کریگا، جسٹس عظمت نے کہا کہ نیب کی دفعہ9 کے تحت آپکو اختیار ہے کہ آپ کسی کی بھی آمدنی کے حوالہ پوچھ سکتے ہیں۔ آپ پوچھتے تو سہی جواب جو بھی آتا وہ اگلا مرحلہ ہوتا وہ ہم دیکھ لیتے کہ تسلی بخش ہے کہ نہیں ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیں تو آپ بھی کسی کو بلا لیتے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لوگ طعنے دیتے ہیں کہ آپ کام نہیں کرتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ آج بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ میرا کام ہے، جسٹس اعجاز الاحسن آپ نے اپنے اختیار کو دفن کر دیا ہے، ادارے کے مفلوج ہونے کا آئیڈیل کیس ہے،چیرمین نیب نے کہا کہ پانامہ لیکس پر ابتدائی کام شروع کر دیا ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیب کو عوام کا ریگولیٹر ہونا چاہیے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ہی ٹھپ کر دیا ہے، نیب کو اپیل کرنا چاہیے تھی، آپ نے اپیل ہی نہیں کی ہے، نیب نے ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا ہی نہیں ہے، نیب کی اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں،ہم اپیل سننے کا پلیٹ فارم نہیں ہیں لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
تازہ ترین