• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب وزیر اعظم کی انشورنس پالیسی تھا، ہمارے سامنے وفات پاچکا ،کوئی تعاون نہیں کررہا، الزامات کہاں پھینکیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ نے ’’پاناما پیپرز لیکس‘‘ کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ نیب وزیراعظم کی انشورنس پالیسی تھا،ہمارے سامنے وفات پاچکا،کوئی تعاون نہیں کررہا، الزامات کہاں پھینکیں۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد ،جسٹس  شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے بدھ کومقدمہ کی سماعت کی تواٹارنی جنرل اشتراوصاف علی نے موقف اختیار کیا کہ شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس کوپانامہ کیس کے ساتھ نہیں جوڑاجاسکتا، یہ بالکل مختلف نوعیت کاکیس ہے تاہم اگرکوئی چاہےتووہ حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس کے حوالے سے لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائرکرسکتاہے۔ان کاکہناتھا کہ پی ٹی آئی نے پاناما پیپرزلیکس کے بارے میں متنازع دستاویزات عدالت میں جمع کرائی ہیں اس لئے عدالت اس کیس پرفیصلہ نہیں دے سکتی۔میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں نیب کی جانب سے اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، فارن کرنسی اکائونٹس پر قرض لیا گیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر کوئی اسٹوری بنائی بھی ہے تواس پر قائم رہیں،ہر وکیل الگ بات کرکے کنفیوژ کر دیتا ہے،بتایا گیا کہ قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی،قرض کی ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکائونٹ کا ذکر نہیں آیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور تمام وکلا عدالت پر رحم کریں،آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کررہا ہوں، اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پانامہ لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، حدیبیہ پیپر ملز اور پانامہ کیس کی نوعیت میں فرق ہے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس کیس سے کیوں کترا رہے ہیں؟اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا ہے؟نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا ہے،الزامات اگر سچ نہیںتھے تو انہیں دفنایا کیوں گیا ہے؟اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کررہے ہیں۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کررہے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں،آپ اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں، آپ سے اسی سطح کی ہی معاونت کی توقع ہے، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کی وکالت نہیں، عدالت کی معاونت کررہا ہوں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی مشکل کو سمجھتے ہیں لیکن عدالتی معاونت کریں۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم نے آپ کو نوٹس جاری کیا ہے اس لیے معاونت کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اپیل کا حق متعلقہ فریق کو ہوتا ہے، غیر متعلقہ شخص کیسے اپیل کرسکتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمارے لیے نیب کل مر گیا، اپیل پر معاونت کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ حکم نہ دے اپیل دائر کرنے کے بہت سے راستے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ عدالت کی اس، حوالے سے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تحت نا اہلی کیلئے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے،اسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم متعدد مقدمات میں کہہ ہیں چکے اگر دیگر ادارے اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، اس دوران نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے یوسف رضاگیلانی کیس میں ناصرف یہ کہا بلکہ انکو گھر بھی بھیجا تھا، اگرچہ اس کیس میں 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے  تھے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے تھے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈیکلریشن دینے کہ اجازت نہیں دیتا،سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئے؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات ہمارے ذہن میں بھی ہے کہ کس حد تک جایا جاسکتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم اسمبلی کے رکن بھی ہیں، ان کی نااہلی کی استدعا سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ ہم گھر بھیج سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ رکن اسمبلی کی نا اہلی کے لئے آئین میں طریقہ کار درج ہے۔ ایم این اے پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتا، اس لئے کو وارنٹو کی درخواست نہیں آسکتی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل جواب دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم کیا گیا اور دستاویزات بھی دی گئی ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک  مجروح کیا گیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا،آپ اداروں میں ہی سوالوں کا جواب دے دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں،ہم سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ان الزامات کو لیکر کہاں پھینکیں،بڑے دنوں سے سب کے دلائل سنے صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں،الزامات کے حوالے سے وقفے کے بعد ہی جواب دے دیں۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم فیصلہ کریں یا اس سے کیسے نمٹیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آئین کو مدنظر رکھے آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا ہے،عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا،ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ھوتا ہے،اگر اثاثے چھپائے ھوں یا غلط بیانی کی ھو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے،مقدمہ میں تین سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ھو سکتی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے کہنے کا یہی مطلب ہے۔ وزیراعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 42 اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے والے کے خلاف فوجداری مقدمہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا ہم یہ سمجھیں کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزار فوجداری شکایت داخل کرے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 248 بھی پڑھ لیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنرز کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں وزیراعظم شامل نہیں ہے۔ سیشن کورٹ میں ٹرائل کرنا پڑے گا اور اس کے لیے شہادت ریکارڈ کرنا ہو گی، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر ڈیکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کے لیے کیا رہ جائے گا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر کی تو متاثرہ فریق نہ ہونے کا نکتہ نہیں اٹھائوں گا،اپیل کے حوالے سے بات بطور اٹارنی جنرل  فار پاکستان کر رھا ہوں، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نااہلی تو پانامہ کیس کا ایک پہلو ہے،نیب نے گزشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا۔وزیراعظم کے لیے نیب انشورنس پالیسی تھی،و زیر اعظم کا وہ دفاع کل دفن ھو گیا۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈیکلریشن دیا تھا۔کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کے لیے متعقلہ فورم کو بھجوایا گیا۔جعلی ڈگری مقدمات میں بھی ڈیکلریشن کے بعدٹر ا ئل کے لیے بھجوائے گئے۔اصغرخان کیس میں عدالت نے قراردیا کہ الیکشن میں دھاندلی ھوئی تھی۔ فوجداری معاملے پر عدالت پھر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے پوچھا ہے کہاں رجوع کیا جاسکتا ہے،کچھ حقائق غلط بیانی سے پیش کیے گئے ہیں،کچھ حقائق کرپشن کے پیش کیے گئے ہیں، پہلے معاملہ پر سیشن جج سے رجوع کیا جاسکتا ہے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ غلط بیانی یا اثاثے چھپانے کے الزام پر فوجداری مقرمہ دائر کیا جاسکتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیراعظم کو فوجداری مقدمے سے استثنیٰ نہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ گزشتہ روز عدالت نے نیب کو دیکھ لیا، تحفظ دیا جا رہا تھا، انشورنس پالیسی ہے کہ نیب دیکھے گی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے ڈیکلریشن دیا تھا، فوجداری کاروائی کیلئے متعلقہ فورم کو کہا گیا،جعلی ڈگری کیس میں ڈیکلریشن دیا مگر فوجداری مقدمے کیلئے سیشن جج کو بھیجا،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی ہے ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کل چیئرمین نیب نے ہمارے سامنے جو کیا وہ یہ تھا کہ میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو،مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب کے جواب کے بعد یہ شعر کہہ سکتے ہیں، وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں نہ مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کل چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کیا ہمارے سامنے ہے وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا ہے ، معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، اٹارنی جنرل صاحب، کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کرلے گا؟ کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا؟چیئرمین نیب کے کل کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ افتخار چیمہ کیس میں اس لیے نا اہل قرار دیا کہ جائیداد ظاہر نہیں کی تھی، بیشک حلال ذرائع سے بنائی ہو، بعد ازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزارپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ،عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا  کہ27 ملین درہم بی سی سی آئی کو دیے گئے، 36 ملین درہم قطر جو کل 63 ملین درہم بنتے ہیں، طارق شفیع نے اپنے پہلے بیان حلفی میں کچھ بھی نہیں اور دوسرے بیان حلفی میں کہا کہ رقم وصول کر کے حمد بن جاسم کے بھائی کو دبئی میں دی تھی۔عدالت کو بتائونگا کہ بارہ ملین درہم کا کیا ہوا تھا۔ نواز شریف نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا ہے لیکن جو کم سنی کی عمر میں تھا اس نے جواب دیا ہے۔ نواز شریف نے سولہ مئی کی تقریر میں جو کہا اسکو زیادہ اہمیت دی جائے۔ نواز شریف کے اپنے موقف سے قطری کنکشن ختم ہو جاتا ہے،جسٹس کھوسہ  نے کہا کہ قطر کا نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہیں ذکر نہیں کیا، ہے ہو سکتا ہے بچوں کو انکے دادا نے قطری سرمایہ کاری کے بارے میں بتایا ہو۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نے خود اپنی تقریر میں کہا ہے کہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردونگا۔  وزیراعظم ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ رکھتے ہیں اس لیے انکی بات کی زیادہ اہمیت ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے الزام لگایا اور انہوں نے جواب دیا ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم سچ بول رہے ہیں یا پھر باقی جھوٹ، بول رہے دونوں میں ایک سچا ہے ہمیں اس پر فیصلہ دینا ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ عدالت والد کے بیان کو بچوں کی وضاحت پر ترجیع دے، اگر عدالت بچوں کے موقف کو تسلیم کرتی ہے تو پوری، ٹرسٹ ڈیڈ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تینوں تقریروں میں یہ نہیں کہا ہے کہ فلیٹس بچوں کے نام پر ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں انکی بھی بات نہ مانیں انکی بھی نہ مانیں صرف آپکی مانیں۔بعد ازاں عدالت کا وقت ختم ہونے پرجسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری کو آج اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعرات (آج ) تک ملتوی کردی۔
تازہ ترین