• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشتگری کے باوجود پاکستان کی معیشت عروج پر ہے، امریکی اخبار

فیصل آباد (رفیق مانگٹ) امریکی اخبار لکھتا ہے کہ دہشت گردی کی شہ سرخیوں کے باجود پاکستان کی معیشت عروج پر ہے۔چند ماہ میں پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ کا باضابطہ درجہ پانے کے بعد دنیا کی کیپٹلائزیشن کی 10؍ فیصد نمائندگی کرنے والے 23؍ ممالک کے ساتھ شامل ہوجائے گا،ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی سازوں نے دہشتگردی کے خطرے پر نظر یں فوکس کر کے پاکستان میںغیر معمولی موقع کو ضائع کردیا۔ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لئے نئی اصطلاح VARP سے مرادویت نام ، ارجنٹائن ، رومانیہ اور پاکستان کی معیشتیں ہیں۔ پاکستان میں مڈل کلاس صارفین کی مارکیٹ 2030تک ایک ہزارپچاس کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے پاکستان کی معاشی ترقی پر اپنے تفصیلی مضمون میں لکھا کہ انڈیکس فنڈ ز پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی ادارہ ایم ایس سی آئی وسط مئی میں پاکستان کو فرنٹیئر مارکیٹ کے زمرے سے باضابطہ ایمرجنگ مارکیٹ (ابھرتی ہوئی مارکیٹ) کا درجہ دے گا۔ یوں پاکستان انڈیکس پر دنیا کی کیپٹلائزیشن کی 10؍ فیصد نمائندگی کرنے والے 23؍ دیگر ممالک کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔تین اہم عوامل پاکستان کی معاشی ترقی کا راز ہیں جن میں حالیہ حملوں کے باجود ایک بہتر سیکورٹی ماحول، متعلقہ سیاسی استحکام اور بڑھتا ہوا متوسط طبقہ شامل ہے،یہ تینوں مشترکہ عوامل پاکستان کی معاشی ترقی کی کہانی سناتے ہیں جنہوں نے جغرافیائی سیاست میں پاکستان کے حجم اوروزن میں اضافہ کیا ہے۔ دہشت گردی، بغاوتوں اور عدم استحکام کی شہ سرخیوں کے علاوہ برسوں کی پسماندگی اور غربت جیسے عناصر نے پاکستان کے لئے کوئی پرکشش اصطلاح نہیں چھوڑی ۔تاہم شہ سرخیوں سے باہر نکل کر پاکستان کو آج دیکھیں۔ 2016ء میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نے بہترین ایشیائی مارکیٹ ہونے کا اعزا زحاصل کیا۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج انڈیکس گزشتہ سال کے مقابلے میں 52 فیصد سے زائدرہا۔گزشتہ ماہ تاریخ میں پہلی باراسٹاک انڈیکس 50ہزار کے سنگ میل کو عبور کرگیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ زپاکستان کی معاشی ترقی کے گن گاتے ہوئے تعریف کرنے پر مجبور ہے اور عالمی بینک نے پیشن گوئی کی ہے کہ پاکستان کی معیشت 2017 میں پانچ عشاریہ دو فیصد شرح نمو تک رہے گی۔اخبار کے مطابق جیسے ہی پاکستان نے اتنا اہم سنگ میل عبور کیا،ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی سازوں نے دہشتگردی کے خطرے پر نظر یں فوکس کردی ، انہوں نے پاکستان میںغیر معمولی موقع کو شاید ضائع کردیا جو عرصے سے دہشت گردی سے متاثر ہے۔ 2013ء میں جب نوازشریف منتخب ہوئے توفوجی بغاوتوں کی تاریخ سے بھرے ملک میں یہ پہلی جمہوری تبدیلی تھی۔جب نواز شریف اقتدا رمیں آئے اس وقت عالمی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں جن میں ٹیکنالوجی رابطہ کاری، وسعت پاتے شہر اور متوسط طبقے کی کھپت میں اضافہ شامل تھا،پاکستان نے اس موقع کو ضائع نہیں کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ مضبوط مڈل کلاس صحت مند معاشروں اور ترقی کرتی معیشت کے لیے بہت اہم ہیں اور پاکستان کی مڈل کلاس کچھ اندازوں کے مطابق نصف سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔بروکنگز انسٹی ٹیوشن اسکالر ہومی خراس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صارفین کی متوسط طبقے کی مارکیٹ2030تک ایک ٹریلن ڈالر(دس کھرب ڈالر) تک پہنچ سکتی ہے۔متوسط طبقے کے اضافے سے زیادہ مواقع ، بہتر خدمات ،زیادہ سیکورٹی اور استحکام کے لئے مطالبات میں اضافہ ہوگا۔یہ مڈل کلاس ہی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر عشرت حسین کاکہنا ہے کہ متوسط طبقہ ہی بڑے کثیر القومی کنزیومرکمپنیوں کے لئے متاثر کن 25 فیصد کی شرح سے ادائیگیاں کر رہاہے۔ متوسط طبقے کے اضافے سے سیمنٹ، اسٹیل، آٹوموبائل اوراس طرح کی دیگر پیداوار میں اضافہ ہوا اور یہی پاکستان کی موجودہ معاشی ترقی کے راز کی اہم وجہ ہے۔ معاشی ترقی پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ تک لے گئی اور مقامی زبان میں ایک اصطلاح یا مخفف کا روپ دھار گئی۔ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لئے BRICS کی اصطلا ح کے بعد جو نیا نام سامنے آیا وہ VARPہے جس سے ویت نام ،ارجنٹائن، رومانیہ اور پاکستان کی معیشتیں مراد ہیں۔ پاکستان کی حکومت کے لئے بڑا امتحان ہے، یہ سچ ہے کہ پاکستان اب بھی غربت، پسماندہ تعلیمی نظام اور عسکریت پسندی کے خطرے سے دوچار ہے، پاکستان میں بجلی کا مسئلہ ہے ملک بھر میں اس بحران کو دیکھا گیا ہے اور نواز حکومت کی بجلی فراہمی اوررسائی انتخابی مہم کا وعدہ بھی ہے۔ چین اور پاکستان کے اقتصادی راہداری کے 46؍ ارب ڈالر کے معاہدے میں نئے ہائی ویز کی تعمیر، ریلوے اور اضافی بجلی کے دس ہزار میگا واٹ کے نئے بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنا شامل ہے۔اگر پاکستان چین کی مدد سے بجلی بحران پرقابو پانے میں کامیاب ہوا تو معاشی نمو کا دائرہ متحرک رہے گا اوراہم جنوبی ایشیائی، جوہری ہتھیاروں سے مسلح ملک میں ایک دہائی تک نارمل صور ت حال برقرار رہ سکتی ہے، اگر یہ حقیقت بن جاتا ہے توبین الاقوامی برادری کو بڑی راحت ہو گی جنہیں پاکستان جیسے اہم ملک کی اشد ضرورت ہے جو اپنی عوام کو بہتر طرز زندگی دے سکے۔مضمون نگار نے پاکستان اور ترکی کا معاشی موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ مصر کی 2011 کی بغاوت صدر حسنی مبارک کے زوال کے ساتھ ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد ممتاز مصری سرمایہ کار احمد ہیکل نے کہا تھا کہ اگر ہمارے معاملات درست سمت رہے تو ہم 10 سالوں میں ترکی جیسی ترقی حاصل کر سکتے ہیں اور اگر اس کے برعکس ہوا تو پاکستان بننے میں صرف اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ہر کوئی اس محرک کو سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت ترکی دنا کے لئے ایک معاشی ترقی کاماڈل تھا اور پاکستان ایک تباہ شدہ ٹرین کی طرح تھا۔ اس وقت ترکی نے بلند معاشی نمو کی ایک دہائی کا دور مکمل کیا تھا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس کی مجموعی قومی پیداوار دگنی اور فی کس آمدنی تین گنا ہو چکی تھی اور یوں ترکی کو ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔یہاں تک کہ ترکی کی ترقی کرتی معیشت کا یہ عالم تھا کہ BRICکا نام متعارف کرانے والے امریکا کی ملٹی نیشنل فنانس کمپنی کے چیئرمین جم او نیل نے میکسیکو،انڈونیشیا،نائجیریا اور ترکی جیسی معیشتوں کے لئے ایک تازہ ترین اصطلاح MINT متعارف کرائی تھی،جس میں Tترکی کے لئے تھا۔ترکی بھی ایمرجنگ مارکیٹ انڈیکس پر ہے لیکن اس کی قسمت تیزی سے اس کی راہ جد اکر رہی ہے، سیاسی بے یقینی اور سیکورٹی کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے ترکی زیادہ عرصے تک ایمرجنگ مارکیٹ معیشت کا درجہ برقرار نہیں رکھ پائے گا۔اس کے علاوہ ترکی کو یورپی یونین اور جنوب میں عسکریت پسند شورش کے ساتھ اپنے تعلقات پر سوالات کا سامنا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو دنیا میں اسے دہشت گردی کے حملوں کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔
تازہ ترین