• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب آرڈیننس چیئرمین کو پلی بارگین کے لامحدود اختیارات نہیں دیتا،سپریم کورٹ

اسلام آباد ( رپورٹ :رانا مسعود حسین  )عدالت عظمی نے لوکل گورنمنٹ بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز میں اربوں روپے کی خرد بردکے مقدمہ کے ملزم ا ور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر خالد لانگو کی نیب کے مقدمہ میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کے حوالہ سے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرا ردیاہے کہ نیب آرڈیننس چیئرمین نیب کو پلی بارگین کے لامحدود صوابدیدی اختیار ا ت نہیں دیتا ہے ،14صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جو بدھ کے روز میڈیا کو جاری کیا گیا ہے ،جس میں فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ چیئرمین نیب اتنا عرصہ تک مذکورہ بالا مقدمہ کے ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکے ہیں ،ایک بندہ جو قومی خزانے کی حفاظت کے لئے رکھا گیا تھا جب رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو ریفرنس دائر کرنے کی بجائےاسے پلی بارگین کی سہولت فراہم کی گئی ۔عدالت چیئر مین نیب کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ ʼʼاپنے اختیارات کو این آر او کے انداز ʼʼمیں استعمال کرکے بدعنوانی کو فروغ دیں ، نیب اس ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والا ادارہ ہے اور عوام کے سامنے جوابدہ ہے ،اگر نیب کے قوانین کا درست استعمال نہ ہوا تو یہ بھی مردہ ادارہ بن جائے گا ،عدالت حکم جاری کرتی ہے کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت نیب کا تمام عملہ قانون کے اندر رہ کر اس کی روح کے مطابق کام کرے ۔عدالت نے فیصلہ کی کاپیاں چیئرمین نیب ،ڈپٹی چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل نیب ، نیب کے تمام صوبائی سربراہان اور تما م احتساب عدالتوںکو بھجوانے کی ہدایت بھی کی ہے،یاد رہے کہ اس سے قبل 14فروری کو سپریم کورٹ نےخالد لانگو کی نیب کے مقدمہ میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کے دوران مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ملزم کی درخواست خارج کردی تھی ا ور قرار دیا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میںجاری کیا جائے گا جس میں نیب کی کارکردگی کا احاطہ کیا جائے گا ۔جبکہ جسٹس دوست محمدخان نے ریمارکس دیئے تھے کہ نیب سمیت تمام ادارے تباہی کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے تھے نیب خود کرپشن کاادارہ بن چکاہے اس کانعرہ نوکرپشن کی بجائے کرپشن کااقرارہوناچاہیے۔جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی اورچیرمین نیب چوہدری قمرالزمان اورپراسیکوٹرجنرل نیب وقاص ڈار پیش ہوئے تھے ۔جسٹس قاضی فائزعیسی نے پراسیکوٹرجنرل سے استفسارکیا تھا ملزمان رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ان سے اربوں روپے بھی برآمد ہوئے ہیں لیکن نوماہ گزرنے کے باوجود ان کیخلاف اب تک ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا گیا ہے ؟ تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے جس پرعدالت نے ان کوروسٹرم سے ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے پراسیکیوٹر جنرل کے غیر سنجیدہ رویہ کونوٹ کر لیا ہے۔چیرمین نیب چوہدری قمرزمان نے بتایا تھاکہ انہوں نے ملزمان کیخلاف ریفرنس دائر کی منظوری دیدی ہے ،جسٹس فائزعیسی نے پوچھا تھا کہ ریفرنس دائرکرنے میں تاخیر کیوں کی گئی ہے ؟  تو وہ کوئی جواز پیش نہیں کر سکے تھے ، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریما ر کس دیئے تھے کہ نیب کرپشن سے انکارکا نعرہ لگاتا ہے، حالانکہ یہ تو خود کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، لگتا ہے کہ چیئرمین نیب اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے جونیئرز کی غیر قانونی باتوں پربھی عمل کرتے ہیں،جسٹس دوست محمد نے کہا تھا کہ نو ماہ میں تو اسقاط حمل کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے لیکن نیب نے اتنے عرصہ میں کچھ بھی نہیں کیا ہے،ملزم کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ملزم کی ضمانت کی درخواست منظورکر نے کی استدعاکرتے ہوئے کہا تھاکہ ان کا موکل بیمار ہے اس لئے عدالت اس کی ضمانت منظور کر ےجس پر جسٹس دوست محمدخان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جھوٹی میڈ یکل رپورٹیں پیش کرکے بھی ضما نتیں لے لی جاتی ہیں، جب عوام کاتحقیقاتی اداروں پراعتما د ختم ہوگیاہے توکیاایسی صورت میں عدالتوں کوکردارادانہیں کرناچاہیے؟ د یکھنا ہوگاکہ خالد لانگو کو مشیر کے عہدہ پر تعینات کس نے کیاتھا ،جسٹس مقبول باقر نے کہا تھاکہ محکمہ صحت اورتعلیم سمیت کسی محکمے نے یہ دعوی نہیں کیا کہ مشتاق رئیسانی سے برآمد رقم ہماری ہے، دیکھنا یہ ہے کہ رقم کس کی تھی؟ اور کہاں سے آئی تھی ؟یا درہے نیب حکام نے مقدمہ کے مرکزی ملزم و سابق صوبائی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ مشتاق احمد رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے مبینہ طور پر 730ملین روپے اور لوٹا گیا دیگر مال برآمد کیا تھا ۔
تازہ ترین