• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینئر افسران کی تنخواہوں میں اضافےکا فیصلہ آڈیٹر جنرل کرینگے

اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی حکومت کے ایک سینئر ماہر قانون کا کہنا ہے کہ کچھ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اہم وفاقی اور صوبائی سرکاری افسران کو تنخواہوں میں دیا جانے والا ہوشربا اضافہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس سرکاری ذریعے نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 240؍ کی خلاف ورزی پر یہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مداخلت کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وفاقی حکومت کے افسران کو صوبوں کی جانب سے ان کی تنخواہوں میں وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر دیا جانے والا اضافہ روکا جائے اور ایسا اضافہ ختم کیا جائے۔ ذریعے نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 240 کے مطابق: ’’آئین کے تابع پاکستان کی ملازمت میں افراد کے تقرر اور ان کی شرائط ملازمت کا تعین۔ (الف) وفاق کی ملازمتوں، وفاق کے امور کے سلسلے میں اسامیوں اور کل پاکستان ملازمتوں کی صورت میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت یا اس کے ذریعے ہوگا؛ اور (ب) کسی صوبے کی ملازمتوں اور کسی صوبے کے امور کے سلسلے میں اسامیوں کی صورت میں، اس صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت یا اس کے ذریعے ہوگا۔‘‘ ذریعے نے کہا کہ چیف سیکریٹریز اور آئی جیز پولیس سمیت وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کے معاملے میں انہیں تنخواہوں کی مد میں دیا جانے والا کوئی بھی اضافہ وفاقی حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ کی منظوری سے ملے گا۔ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر، صوبوں کی جانب سے ایسے ملازمین کی ملازمت کی شرائط تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی صورت میں، متعلقہ حکومتیں اس طرح کے اضافے کی منظور ی دے سکتی ہیں لیکن صرف متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری سے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بھی چیف سیکریٹریز، انسپکٹر جنرلز اور صوبوں میں کچھ دیگر ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ صوبوں نے غیر قانونی طور پر اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے اسلئے اب یہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کارروائی کریں اور اس طرح کے اقدام کو روکیں۔ تاہم، صوبائی حکومتوں کا اصرار ہے کہ وزرائے اعلیٰ کو یہ اختیار ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں یا وفاقی حکومت سے رجوع کیے بغیر اس طرح کے اضافے کی منظوری دے سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسا کیا گیا ہے لیکن کسی نے اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا۔ مقننہ کو شامل کیے بغیر اور پے اینڈ پنشن کمیٹی کی سفار شا ت کی غیر موجودگی میں بلوچستان، سندھ اور پنجاب حکومت نے حال ہی میں اپنے صوبائی اور ساتھ ہی وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا۔ پنجاب اور بلوچستان کے معاملے میں، سینئر پوسٹ الائونس کے نام پر دیا جانے والا یہ ہوشربا اضافہ چیف سیکریٹریز اور آئی جیز پولیس کو دیا گیا ہے۔ بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ یہ اضافہ چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کی پنشن میں شامل کیا جائے ۔ سندھ کے معاملے میں صوبائی بیوروکریسی نے صوبا ئی سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے تمام ملازمین اور افسران کے یوٹیلیٹی الائونس میں دو گنا اضافہ کر دیا ہے تاہم چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس سندھ کو فی الحال پنجاب اور بلو چستان کی طرز پر کوئی اضافہ نہیں دیا گیا۔ سب سے پہلے پنجاب حکومت نے کچھ ماہ قبل چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو بالترتیب چار لاکھ اور پونے چار لاکھ روپے ماہانہ کا سینئر پوسٹ الائونس منظور کیا۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بھی چار لاکھ روپے ماہانہ کا سینئر پوسٹ الائونس دیا گیا۔ ان بھاری الائونسز کے علاوہ، پنجاب حکومت نے حال ہی میں ریٹائرمنٹ کے بعد چیف سیکریٹری اور آئی جیز پولیس کیلئے ایک پیکیج کی منظوری دی۔ حاضر سروس اور ریٹائر ڈ چیف سیکریٹری اور آئی جیز پولیس کی موت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ پیکیجز ان کے اہل خانہ کیلئے جاری رہیں گے۔ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے پنجاب سیکریٹریٹ کے ملازمین کیلئے خصوصی الائونس کی منظوری دی گئی تھی جس میں ان ملازمین کو 30 جون 2011 کو ان کی بنیادی تنخواہ کا 50؍ فیصد الائونس دیا جائے گا۔ اس سے قبل انہیں 20 فیصد اسپیشل الائونس ملتا تھا جسے سیکریٹریٹ الائونس کہا جاتا تھا۔
تازہ ترین