• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر منتے والا اور مناور سیکٹر کے دورے میں درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ اسلام آباد بھارتی حکمرانوں کے ان مذموم عزائم سے پوری طرح واقف ہے جو کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیوں اور وطن عزیز سمیت پورے خطے میں دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کے پس منظر میں کارفرما ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ بھارت میں رہنے بسنے والے امن دوست حلقے بھی اپنی حکومت کو یہ یاد دلاتے رہیں کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے وقت ان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو سمیت جدوجہد آزادی کے رہنمائوں نے دنیا کو دکھانے کیلئے خود کو جس پنج شیلا کا پرچارک قرار دیا تھا اس کے نکات میں پرامن بقائے باہمی، عدم تشدد اور دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کے اصول بھی شامل تھے اور اگر ان پر واقعی عمل ہوتا تو جنوبی ایشیا امن و استحکام کی فضا میں اپنے ماضی کی طرح ترقی و خوشحالی کی وہ منزلیں طے کرچکا ہوتا جن کی وجہ سے یہ خطہ پوری دنیا کے لوگوں کا مرکز نگاہ رہ چکا ہے۔ نئی دہلی کے حکمرانوں نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے اور مقامی سطح پر امن و تحفظ کی فضا قائم رکھنے کے لئے لیاقت نہرو معاہدے سمیت کئی سمجھوتوں میں جو وعدے کئے تھے ان پر عمل کیا جاتا تو کشمیر سمیت کئی مسائل حل ہوچکے ہوتے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی جس صورتحال کی پردہ پوشی کے لئے بھارت بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے اقدامات کررہا ہے ان کی ضرورت پیش نہ آتی۔ مگر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور ہزار سالہ فلاحی اقتدار کے جواب میں برصغیر کی ایک پوری قوم کو کچلنے کا نفسیاتی عارضہ پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں سمیت متعدد علاقوں پر فوجی قبضے اور پڑوسی ملکوں میں مداخلت کی ایسی بدترین کیفیت میں ظاہر ہوا جس نے نہ صرف کئی جنگوں کو جنم دیا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن کو سات عشروں سے مسلسل خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ برصغیر میں ایسے ذی فہم لوگ موجود ہیں جو بالادستی اور دوسروں کو تابع فرمان بنانے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش کے منفی اثرات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ مگر بھارتی حکومت کی امن بیزاری پر مبنی پالیسی اور دھمکیوں کے ذریعے مقبولیت حاصل کرنے کے طور طریقوں کے شور میں ان کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، انہیں سانحہ چیئرنگ کراس لاہور کے حوالے سے اس انکشاف پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والی دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کی ویب سائٹ بھارتی شہر چنائی سے آپریٹ ہورہی تھی۔ منگل کے روز خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی میں تین خودکش بمباروں کی جس کوشش کو ہماری پولیس کے جوانوں نے اپنی بہادری و جان نثاری سے ناکام بنایا، اس کی ذمہ داری بھارت سے تانے بانے رکھنے والی مذکورہ تنظیم نے ہی قبول کی ہے۔ اس واقعہ میں 8سویلین شہید جبکہ 7پولیس اہلکاروں سمیت 25افراد زخمی ہوئے۔ دھماکے کے وقت عمارت میں چار ججوں اور 40وکلا کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ خودکش حملہ آوروں کی احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کامیاب ہوجاتی تو نقصان کا حجم بہت زیادہ ہوتا۔ اس حملے سمیت دہشت گردی کی تمام کارروائیوں سے نمٹنے والے سیکورٹی اہلکار پاکستانی قوم کے قابل فخر سپوت ہیں۔ اس منظر نامے میں، کہ اسلام آباد دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کارروائی کی تجاویز پر کابل سے رابطے میں ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے افغان سفیر کے ذریعے صدر اشرف غنی کو بھیجے گئے اس پیغام کو جنگ کی آگ بھڑکانے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے جس میں افغانستان سے آنیوالے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ’’افغانستان پر حملہ‘‘ کا نام دیتے ہوئے اسے بھارت پر حملے کے مترادف کہا گیا ہے۔ عالمی برادری کو اس پیغام میں چھپی ہوئی جارحیت کی خواہش کا نوٹس لینا چاہئے۔ درجنوں علیحدگی کی تحریکوں سے دوچار ملک بھارت کے وزیراعظم کے حق میں بھی یہ بہتر ہوگا کہ وہ ایٹمی ملک پاکستان کے خلاف مہم جوئی کے شوق کے سنگین مضمرات پر غور کرلیں۔

.
تازہ ترین