• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر نے خوامخواہ ہم جیسوں پر تہمت جڑ دی یا شاید کوئی شعری مجبوری ہو گی ورنہ ہم جیسے ’’منجمد‘‘ معاشرے کے بارے میں کبھی یہ نہ کہتا کہ اس کی حرکت تیزتر ہے لیکن سفر آہستہ آہستہ کیونکہ ہمارا سارا سفر ایک ہی جگہ اچھل کود کا سفر ہے یا زیادہ سے زیادہ اسے ریورس کا سفر کہہ سکتے ہیں جسے بیان کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک قدم آگے سو قدم پیچھے۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب جنرل ضیاءالحق بطور صدر مملکت اپنے وزیر اعظم جونیجو کے باس ہونے کے ساتھ ساتھ بطور چیف آف آرمی سٹاف اسی وزیر اعظم کے ماتحت بھی تھے۔اسی کامیڈی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں نے انہی زمانوں میں عرض کیا تھا۔شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافیالٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گاموجودہ صورتحال میں بھی یہ شعر اتنا ہی تروتازہ ہے جیسے عشروں پہلے تھا۔کامیڈی کی شکلیں بدلی ہیں، کامیڈینز بھی یقیناً تبدیل ہوئے ہیں، باقی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ورنہ اس شہر آسیب و آشوب میں اس طرح کی آوازیں سنائی نہ دیتیں ۔’’دادا فوت ہو گئےبچے کچھ کرتے نہیںبیگم ہائوس وائف ہیں‘‘باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں جائیداد دادا سے ملی ویسے سچ پوچھیں تو تکنیکی طور پر جائیداد کا تو تعلق ہی صرف اور صرف ’’دادا‘‘ سے بنتا ہے ۔ یقین نہ آئے تو یہ لفظ توڑ کر دیکھ لیں ’’جائے داد‘‘اور ظاہر ہے یہاں ’’داد‘‘ سے مراد دادا ہی ہے۔گو یہ دلیل اتنی ہی بھونڈی اور بوگس ہے جتنی شوگر مل کیس میں یہ کہتے ہوئے دی گئی کہ ہم نے یہ شوگر مل لگائی نہیں، ’’شفٹ کی ہے ۔اسی لئے تو کہتا ہوں یہ لوگ لفظوں کی لڈوکھیلنے میں ماہر ہیں‘‘ لیکن یہی کیا؟کون نہیں ہے ورنہ حبیب جالب45-50سال پہلے وہ نظم نہ لکھتا جس کا یہ مصرع آج تک ہم جیسوں کو نہیں بھولا جو اس وقت ٹین ایج میں تھے۔مصرع پر غور فرمائیے۔’’پیسے ملے ......کیسے ملے ؟‘‘مطلب یہ کہ ’’کیسے ملے ؟‘‘ والا سوال تو یہاں کب کا اپنی موت مر چکا۔فرق صرف اتنا ہے لوگ شرم بھرم کا خیال کرتے تھے، چھپ چھپا کر منہ کالا، برائون یا آف وائٹ کرتے لیکن اب تو شرمانے سے شرم آتی ہے۔ ایسا ایسا ضمیر فروش ہر قسم کی منڈی میں عام دستیاب ہے جو ’’پیسے ملے کیسے ملے ؟‘‘ پر لعنت بھیج کر روکڑے کے عوض سرعام تھوکا چاٹنے اور فورم کے مطابق بیانات اور دلیلیں بدلنے پر تیار ہو جاتا ہے اور معزز بھی کہلاتا ہے۔ یہ ’’کردار‘‘ نہیں ’’جھنکار‘‘ کے لوگ ہیں ۔دولت کی جھنکار کے لوگ جن کی ایڑیوں کے اندر پیدائشی طور پر گھنگھرو موجود ہوتے ہیں۔انہی کی بہتات نے دراصل ایسے بلیغ جملوں کو جنم دیا ۔’’نوٹ دکھا مرا موڈ بنے‘‘آج کل زبان زدعام ہے کہ ہوس زر کی وبا بری طرح پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکی اور پیسہ ہی فیصلہ کن فیکٹر بلکہ اکلوتا فیکٹر رہ گیا ہے تو جان کی امان پائے بغیر کہوں جو شاید پہلے بھی کہیں کہہ یا لکھ چکا ہوا ہوں کہ پاکستان میں آج بھی پیسہ سب کچھ ہو جانے کے بعد وہاں نہیں پہنچ پایا جہاں مدتوں پہلے امریکن سوسائٹی میں پہنچ گیا تھا۔نعوذباللہ امریکن معاشرہ میں ڈالر خدا ہے ۔ڈالر ہی ان کا دین دھرم ماں باپ، بھائی دوست سب کچھ ہے لیکن اس کے باوجود.....اس زرپرستی کے باوجود کسی امریکن کو یہ آفر تو لگائو کہ آئو،جعلی دوائیاں بناتے ہیںدودھ میں پانی اور کیمیکل ملاتے ہیںعدالت میں جھوٹی گواہی دیتے ہیںگدھے کو مٹن بنا کر بیچتے ہیںمردہ جانوروں کی انتڑیوں سے کوکنگ آئل تیار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہوہ منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرے گا، پولیس کو مطلع کرے گا اور ذرا کمزور دل ہوا تو اسے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔مستثنیات کو چھوڑیں کہ جہاں انسان ہو گا وہاں جرم بھی ہو گا اور گناہ بھی، ہوس زر اور دولت سے محبت کو بھی چھوڑیں کہ ہزاروں سالہ قدیم الہامی و انسانی تحریریں اس انسانی کمزوری سے بھری پڑی ہیں لیکن ہوس زر، لالچ، لوبھ کی یہاں تو حد ہی کوئی نہیں رہی اور اس انتہا نے ہر شے کو اس طرح مسخ کرکے رکھ دیا کہ انسانوں، عہدوں، رشتوں، ویلیوز کی شناخت ہی ممکن نہیں رہی ورنہ کم از کم یہ تو نہ سننا پڑتا۔’’حدیبیہ فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کے موقف پر قائم ہوں‘‘(چیئرمین نیب)’’پاناما کیس، عدالت کو فیصلے کا اختیار نہیں ‘‘(اٹارنی جنرل)

.
تازہ ترین