• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ظلم کی کیسی کیسی داستانیں ہمارے اردگرد ہیں لیکن کوئی کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی کی گزشتہ منگل کے روز جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کسی بھی زندہ معاشرہ کو جنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن ان دو دنوں کے دوران مجھے کہیں سے کوئی ایک ایسی آواز سنائی نہ دی جس میں کسی نے اس مسئلہ پر محض لب کشائی ہی کی ہو۔ چند گمشدہ’’بلاگرز‘‘ کے لیے تو میڈیا، پارلیمنٹ، سول سوسائٹی، مغربی قوتیں سب نے آسمان سر پر اُٹھا لیا لیکن جنگ کی اس خبر کے مطابق راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں ، چالیس سالہ خاتون مختلف ہاتھوں میں بکتے بکتے افغانستان پہنچ گئی۔ اس خاتون کے شوہر نے کئی ہفتہ قبل راولپنڈی کے ائیرپورٹ تھانہ میں ایف آئی آر درج کروائی لیکن کچھ نہ ہوا۔ اس خاتون کے شوہر سے اغوا کاروں نے 3 لاکھ تاوان کا مطالبہ کیا ہے لیکن مزدوری کرنے والے کے لیے نہ تو ریاست کچھ کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اُس کے پاس اتنا پیسہ ہے تین لاکھ روپیہ دے کر اپنی بیوی کی واپسی کو ممکن بنا سکے۔پولیس نے تو ویسے ہی ہتھیار ڈال دیے اور غریب شوہر کو کہہ دیا ہے کہ وہ اس صورتحال میں کچھ نہیں کرسکتی۔ رپورٹر کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ پاکستان سے لا تعداد خواتین منظم گینگ کے ذریعے افغانستان میں فروخت کی جاچکی ہیں۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق افغانستان منتقل کئے جانے کاصرف ایک کیس ان کے علم میں ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس گھنائونے دھندے میں ملوث صوابی کے ایک شخص نے فخر درانی کو خوفناک حقائق سے آگاہ کیا۔ اس شخص نے جسے ’’حاجی ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے نے رپورٹر سے گفتگو میں ( جو ریکارڈ بھی کی گئی) بتایا کہ کس طرح ان خواتین کوٹریپ کر کے افغانستان میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ ’’ حاجی ‘‘ نے فخر درانی کو بتایا کہ پہلے گینگ ایسے غریب خاندانوں کا پتہ چلاتے ہیں جن کی جوان بچیاں ہوں پھر اُن بچیوں کے لیے رشتے لاتے ہیں اور معقول رقم کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔ غریب لوگوں کو کیا چاہئے اگر ان کی بچیوں کی شادی ہوجائے اور انہیں معقول رقم بھی مل جائے۔ اس پر یہ خاندان اپنی بچیوں کو افغانستان یا پنجاب میں یا ملک میں کہیں اور فروخت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ گینگ دو قسم کے دھندے کرتا ہے ، ایک پاکستانی لڑکیاں افغانستان یا افغان لڑکیاں پاکستان میں فروخت کرنے کا، اور دوسرا اس گینگ سے وابستہ لڑکیوں کو جعلی نکاح کے ذریعے بڑی عمر کے دیہاتی لوگوں کو بیچنے کا۔ ’’ حاجی ‘‘ نے بتایا کہ ہم ہزاروں لڑکیاں بیچ چکے ہیں یا ان کے شوہروں سے جعلی نکاح کراچکے ہیں، ہمارے پاس ایک نکاح رجسٹرار بھی اس علاقے میں موجود ہے جو ایک بڑی مسجد کا امام ہے جہاں گینگ کے لوگ رہتے ہیں اور وہ ہر نکاح پر 5 ہزار روپے کمیشن لیتا ہے۔ افغانستان میں گینگ کی سرگرمیوں کے بارے میں حاجی نے کہا کہ وہاں ایک ’’ بڈھی‘‘ کے نام سے خاتون ہے جو افغانستان میں گینگ کی سرگرمیاں چلاتی ہے ، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا یہ خاتون افغان شہری ہے تو اس نے بتایا کہ وہ ایک پاکستانی ہے جو صوابی میں رہتی ہے اور کے پی کے پولیس کے ایک ریٹائر افسر کی بیوی ہے وہ ان خواتین کو اپنے ساتھ جلال آباد لے جاتی ہے اور وہاں افغان ایجنٹوں کو فروخت کردیتی ہے اور یہ رقم گینگ کے ارکان میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ ’’حاجی‘‘ نے کتنا سچ بولا اور کتنا جھوٹ اس بات کا تو تحقیقات سے ہی پتا چلے گا لیکن راولپنڈی کی رہائشی فرزانہ زوجہ ارشد محمود کی گمشدگی اور اُس کا افغانستان پہنچنا ایک حقیقت ہے۔ فرزانہ جس کی عمر 40 سال ہے اور جو تین بچوں کی ماں ہے ، راولپنڈی کی رہائشی ہے۔ اس کے خاوند کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق اسے اغوا کیا گیا اور صوابی لے جایا گیا جہاں سے وہ افغانستان اسمگل ہوگئی جہاں دو بار مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہے۔ یہ ایف آئی آر راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ میں یکم جنوری 2017کو درج کرائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق رشتے کرانے والے مختارنامی شخص نے فرزانہ کو اغوا کیا اور ایک ماہ گزرنے کے بعدبھی وہ لاپتہ ہے تاہم ایف آئی آر کے اندرج کے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ رپورٹر نے فرزانہ کے خاوند ارشد محمود سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اسے افغانستان سے (0093706500822) سے فون کال آئی تھی اس شخص نے اپنے آپ کو ایجنٹ ظاہر کیا جس نے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فرزانہ کو خریدا اور اب اس نے فرزانہ کی واپسی کے لئے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے رقم نہ ملی تو وہ اسے کسی اور کو فروخت کردے گا۔ افغان ایجنٹ نے فون پر فرزانہ کی اس کے شوہر سے بات کرائی جس نے بتایا کہ اسے کس طرح اغوا کیا گیا اور اب افغانستان میں کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ ارشد محمود کے مطابق فون پر فرزانہ نے اسے بتایا کہ اسے ایک ادھیڑ عمر شخص کو نکاح کے بعد فروخت کیا گیا اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اسے بتایا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں جس پر اس معمر شخص نے جو مہربان اورمذہبی شخص تھا اسے واپس ایجنٹ کے حوالے کرکے اپنی رقم واپس لے لی۔ اب فرزانہ ایجنٹ کی تحویل میں ہے جو اس کی واپسی کے لئے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہا ہے تاہم اس کا خاوند دیہاڑی دار ہے اور اس کے مطابق وہ مشکل سے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے تو کس طرح اپنے بچوں کی ماں کو واپس لانے کے لئے اتنی بڑی رقم کا انتظام کرسکتا ہے۔ پولیس کے مطابق اُس نے مختار کی گرفتاری کے لئے کئی چھاپے مار ے مگر وہ فرار ہے تاہم افغانستان سے فرزانہ کو واپس لانا پولیس کے دائرے سے باہر ہے اور یہ کام صرف پاک فوج ہی کرسکتی ہے۔
’’بلاگرز‘‘ کے مسئلہ پر دن رات شور مچانے والے کسی اینکر کے کانوں میں اس خبر پر جوں تک نہ رینگی اور نہ ہی کسی این جی او، موم بتی بریگیڈ یا سول سوسائٹی کے ضمیر کو جھنجوڑا حالاںکہ یہ ایک خاتون کی گمشدگی، اُس کے اغوا اور استحصال کا بدترین کیس کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر ایک ایسا سنگین ا سکینڈل ہے جس کا شکار ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں غریب گھرانوں کی بچیاں ہو سکتی ہیں۔ فرزانہ کی افغانستان سے واپسی اور اُس کے شوہر کی بے بسی کے بارے میں سینٹ، قومی اسمبلی میں سے کسی نے بھی آواز نہ اٹھائی۔ وزیر اعظم، وزراء میں سے بھی کوئی اس مسئلہ پر ابھی تک نہ بولا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ فوج اور عدلیہ کی طرف سے بھی اس معاملہ پر کسی قسم کا نوٹس لیے جانے کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا۔ نجانے اس معاملہ میں سب گونگے کیوں ہو گئے۔

.
تازہ ترین