• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گفتگو کا موضوع بلوچستان تھا لیکن بات لال شہباز قلندرؒ کی طرف نکل گئی اور محمد بن قاسم پر رک گئی۔ اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں کی ایک سماجی تنظیم نے بلوچستان پر گفتگو کی دعوت دی تھی اور سوال یہ تھا کہ بلوچ مردم شماری کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ میںبتا رہا تھا کہ بلوچوں کی ایک بڑی تعداد پچھلےکچھ سالوں سے امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اپنے گھروں سے باہر ہے پھر بلوچستان میں افغان مہاجرین بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں لہٰذا بلوچوں کو خدشہ ہے کہ وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن جائیں گے، اس لئے وہ مردم شماری کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایک عرب سفارتکار نے سوال کیا، بلوچستان میں دہشت گردی کون کرا رہا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتاایک جاپانی سفارتکار نے پوچھا کہ ’’آپ نے اپنے کالم ’’دمادم مست قلندر‘‘ میں لکھا کہ علی ہجویری ؒ اور لال شہباز قلندرؒ جیسے صوفیوں نے یہاں اسلام پھیلایا۔ لیکن ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ برصغیر میں محمد بن قاسم نے اسلام پھیلایا۔ ‘‘تقریب کے میزبان نے اس سوال کو موضوع کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیااور مجھے بلوچستان پر توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی۔ میں نے بلوچستان پر بات ختم کرکے گزارش کی کہ مجھے محمدبن قاسم کے متعلق سوال کا جواب دینے کی اجازت دی جائے۔ اجازت ملنے پرعرض کی کہ محمد بن قاسم اپنے دور کا ایک بہادر جنگجو تھا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ درست نہیں کہ برصغیر میں وہ اسلام لے کر آیا۔ اس کی آمد سے قبل یہاں اسلام آچکا تھا۔ یہ سن کر میرے سامنے بیٹھے ہوئے سفارتکاروں نے آپس میں سرگوشیاں شروع کردیں۔ جاپانی سفارتکار نے اپنی عینک اتاری، سر کھجایا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیا آپ ہمیں کسی ایسی کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں جس سے پتہ چلے کہ ’’واقعی‘‘ محمد بن قاسم کے سندھ میں آنے سے پہلے وہاں اسلام موجود تھا؟ فوری طور پر جوکتاب میرے ذہن میں آئی وہ مولانا محمداسحاق بھٹی کی ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ تھی۔ میں نے کتاب کا نام لینے کے بعد کہا کہ یہ کتاب میں نے کافی سال قبل پڑھی تھی لیکن کتاب اردو میں ہے۔ جاپانی سفارتکار نے کہا آپ کا کالم بھی اردو میں تھا لیکن ہم نے اردو پڑھنا سیکھ لیا ہے۔ آپ یہ بھی بتائیں کہ کتاب کہاں سے ملے گی..... بتایا کہ یہ کتاب ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کی تھی اور بہت سال پہلے مصنف نے یہ کتاب اپنے دستخط کے ساتھ مجھے عنایت کی تھی۔ اب مجھ سے تقاضا کیا گیا کہ میں اس کتاب میں موجود کچھ تفصیل بھی بیان کروں۔
مولانا اسحاق بھٹی صاحب کچھ عرصہ قبل انتقال فرما چکے ہیں لیکن ان کی تصانیف علم و ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لئے موجود ہیں۔ ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ میں انہوں نے ان 25صحابہ کرامؓ کا ذکر کیا جن کی سندھ اور بلوچستان میں آمد کا سلسلہ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں شروع ہوا۔ ان کی تحقیق کےمطابق ایک صحابیٔ رسولﷺ مغیرہ بن ابوالعاص ثقفیؓ نے سندھ کا شہر دیبل فتح کیا۔ ان کے بھائی حکم بن ابو العاصؓ نے ہندوستانی گجرات اور کاٹھیاواڑ کے علاقے فتح کئے جبکہ اسی دور میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے مکران بھی فتح کیا۔ یہ تمام فتوحات حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفیؓ کی نگرانی میں مکمل ہوئیں جو عمان او ر بحرین کے گورنر تھے۔ مولانا اسحاق بھٹی نے یہ واقعات بلاذری کی تصنیف ’’فتوح البلدان‘‘ کے حوالے سے لکھے ہیں اور ان کی تحقیق کے مطابق محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے 78سال قبل مسلمانوں کے قدم برصغیر پاک و ہند میں پڑ چکے تھے۔ مولانا اسحاق بھٹی نے محمد بن قاسم کے متعلق کچھ دیگر غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا۔ انہوں نے لکھا کہ محمد بن قاسم نے جب سندھ پر حملہ کیا تو ان کی عمر 17سال نہیں بلکہ 28سال تھی۔ وہ حجاج بن یوسف کے بھتیجے تھے اور نہ ہی داماد۔ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف عراق کاگورنر تھا۔ عمان اور سندھ کے علاقے میں معاویہ بن حارث علافی اور اس کے بھائی محمد بن حارث علافی نے خلیفہ مروان کے خلاف بغاوت کردی۔ ان باغیوں کو راجہ داہر کی مدد حاصل تھی۔ حجاج بن یوسف نے بار بار راجہ داہر کو خط لکھا کہ باغیوں کی مدد سے باز رہو۔ اسی دور میں سیلون (سری لنکا) کے کچھ مسلمان خاندان بحری راستے سے عمان جارہے تھے انہیں بحری ڈاکوئوں نے لوٹ لیا۔ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر سے ڈاکوئوں کی سرکوبی کامطالبہ کیا کیونکہ واقعہ دیبل کی بندرگاہ پر پیش آیا تھا۔ راجہ داہر نے انکار کردیا جس کے بعد محمد بن قاسم کو راجہ داہر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا۔ راجہ داہر کو شکست دینے والے محمدبن قاسم کو نئے حکمران سلیمان بن عبدالملک کے حکم پرگرفتار کیا گیا اور قتل کردیا گیا۔ اس نوجوان سپہ سالار نے سندھ، راجستھان اور گجرات کاٹھیا واڑ میں کچھ مساجد اور مدرسے ضرور تعمیر کرائے لیکن اس کے یہاں آنے سے پہلے اسلام اِدھر موجود تھا۔ اس نے مفتوح علاقوں میں ظلم و ستم سے گریز کیا اور انصاف قائم کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی المناک موت پر گجرات کے شہر کھیڑا میں ہندوئوں نےاس کا مجسمہ بنا کر شہر کے وسط میں نصب کردیا۔
محمد بن قاسم نے بہت سے غیر مسلم بھی اپنی فوج میں شامل کر رکھے تھے۔ وہ کوئی ایسے جنگجو نہیں تھے جس نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کی کوشش کی۔ اسلام پھیلانے کا کام ان علما اور بزرگوں نے کیا جو سمندری راستوں سے سندھ اور بلوچستان آئےاور بہت سے بزرگ وسط ایشیا کے زمینی راستوں سے افغانستان اور کشمیر میں آئے اور اسلام پھیلایا۔ مولانا اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب میں ایسے 18بزرگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سرزمین عرب سے آ کر سندھ اور ہند میں آباد ہوئے۔ ان میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کا ذکر نہیں ہے جن کا مزار کلفٹن کراچی میں واقع ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی محمد بن قاسم کی طرح بہت بعد میں سندھ آئے۔ عبداللہ شاہ غازیؒ صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی تھے۔ صوفی تلوار کے ذریعے اسلام نہیں پھیلاتا لیکن جہاں مسلمانوں پر ظلم حد سے بڑھ جائے وہاں مجاہد کاساتھ بھی دیتاہے اور خود بھی تلواراٹھا لیتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکی اجمیر کے راجہ پرتھوی راج چوہان سے لڑائی کی وجہ بھی یہی تھی اور اس بزرگ نے پرتھوی راج چوہان کے مقابلے پر محمد غوری کاکھل کر ساتھ دیا تھا اورآج بھی اجمیر میں ان شہدا کی قبریں موجود ہیں جنہوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے حکم پر پرتھوی راج چوہان کے خلاف جنگ کی۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور محمد غوری کا تعلق افغانستان سے تھا۔ آج غوری پاکستان کا ہیرو ہے اور پرتھوی ہندوستان کا ہیرو ہے۔ پاکستان نے اپنے میزائلوں کے نام غوری اور غزنوی سے منسوب کر رکھے ہیں جو افغان تھے لیکن کچھ افغان آج پرتھوی کے نام لیوائوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمان اقوام متحد رہیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن جب سلیمان بن عبدالمالک جیسے سازشی حکمران محمد بن قاسم کو قتل کرانے لگیں تو دشمن ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں مارنے لگتا ہے۔ ہمیں محمد بن قاسم کے انجام سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو مروانے کی سازشوں کو چھوڑنا ہوگا۔

.
تازہ ترین