• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استاد خارش لدھیانوی بہت بلند پایہ شاعر، ادیب اور دانشور ہیں مگر پی آر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ استاد نے اپنا تخلص خارش رکھا ہوا ہے جسے پنجابی میں ’’کھرک‘‘ کہتے ہیں اور یہ تخلص انہوں نے بلاوجہ نہیں رکھا کیونکہ انہیں اکثر کھرک ہوتی رہتی ہے۔ میں استاد کے بارے میں باقی باتیں بعد میں عرض کروں گا پہلے یہ بتالوں کہ میں اس کالم میں جہاں خارش کا ذکر کروں گا وہیں اس کے لئے کھرک کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔ کھرک کے’’کھر‘‘ پر پیش ہوتی ہے چنانچہ جب آپ اسے پیش کے ساتھ پڑھیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ لفظ بذات خود مجسم کھرک ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اسے ’’خارش‘‘ پر ترجیح دیتا ہوں بلکہ میں تو استاد خارش لدھیانوی کو کئی مرتبہ مشورہ دے چکا ہوں کہ وہ کھرک لدھیانوی کہلوائیں مگر ان کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ دنیا ان کو خارش لدھیانوی کے نام سے جانتی ہےلہٰذا اب تخلص تبدیل کرنا مناسب نہیں۔ واضح رہے’’دنیا‘‘ سے ان کی مراد یہ خاکسار ہے، بہرحال میں آپ کو خارش صاحب کے حوالے سے بتارہا تھا کہ وہ اچھے خاصے دوستوں کے ساتھ بیٹھے گپ شپ کررہے ہوتے ہیں کہ اچانک انہیں کھرک ہوتی ہے اور پھر وہ کھجلانے کے لئے اپنا ہاتھ اپنے جسم کے مختلف حصوں کی طرف لے جانے لگتے ہیں اور ایسا کرتے وقت وہ خواتین کی موجودگی کی بھی پروا نہیں کرتے، اگر دیکھا جائے تو کھرک ایک ذاتی معاملہ ہے لیکن خارش صاحب کی کھرک بعض اوقات ذاتی نہیں رہتی کیونکہ محفل میں موجود تخریبی ذہن کے لوگ انہیں کھرکتے دیکھ کر اور اس دوران ان کی لذت بھری سسکاریاں سن کر خود بھی کھرکنے لگتے ہیں اور یوں ذاتی کی بجائے اجتماعی کھرک شروع ہوجاتی ہے اور صرف وہی نہیں بلکہ استاد خارش لدھیانوی کو جب کمر کے کسی ایسے حصے میں کھرک ہوتی ہے جہاں تک ان کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتاتو وہ کمر کو کسی دروازے سے رگڑنے لگتے ہیں اور یہ رگڑ اتنی شدید ہوتی ہے کہ دروازے کی چوکاٹھیں ہل جاتی ہیں اور یوں صاحب خانہ ان کی کھرک کو ان کا ذاتی مسئلہ سمجھنے سے انکار ی ہوجاتا ہے۔
استاد خارش لدھیانوی گزشتہ روز میری طرف تشریف لائے۔ موصوف بہت بری طرح بارش میں بھیگے ہوئے تھے، کہنے لگے’’اگرچہ بارش نے میرے سارے کپڑے گیلے کردئیے ہیں مگر مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں، کیونکہ راستے میں ایک غزل حسب حال ہوئی ہے تم سنوگے تو پھڑک اٹھو گے‘‘ اور پھر میرے’’ارشاد‘‘ کہنے سے پہلے ہی انہوں نے غزل کا مطلع پڑھا!
پہلے پورے شہر میں چاروں طرف بارش ہوئی
اور پھر اس شہر کے ہر شخص کو خارش ہوئی
وہ تو پوری غزل سنانے کے موڈ میں تھے مگر میں نے حیلوں بہانوں سے ان کی یہ کوشش ناکام بنادی ا ور کہا ’’استاد آج ایک بات بتائو‘‘ بولے’’پوچھو‘‘ میں نے کہا ’’ایک طویل عرصے سے میں آپ کو کھرک میں مبتلا دیکھ رہا ہوں، آپ اس کا علاج کیوں نہیں کراتے؟‘‘
فرمایا’’اچھا سوال ہے مگر پہلے تم یہ بتائو کہ ہمارے کچھ شعراء شراب کیوں پیتے ہیں؟ بیشتر چائے کی بیس پچیس پیالیاں روزانہ کیوں پیتے ہیں؟ اور بے شمار شاعر ساٹھ ستر سگریٹ روزانہ کیوں پھونکتے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا’’ان لوگوں کا خیال ہے کہ سوچ بچار کرنے والوں کو کوئی’’کک‘‘ درکار ہوتی ہے اور یہ چیزیں ان کے لئے کک کا کام دیتی ہیں‘‘ فرمایا’’بالکل صحیح! یہ جو خارش ہے! یہ میرے خیالات کو اسی طرح مہمیز دیتی ہے جس طرح دوسرے شاعروں اور ادیبوں اور دانشوروں کے افکار عالیہ کو دوسری چیزیں مہمیز دیتی ہیں، تم نے دیکھا نہیں جب میں خارش کررہا ہوتا ہوں اس وقت دیکھنے والے مجھے کسی اور دنیا کا باشندہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ آمد کا لمحہ ہوتا ہے‘‘۔
میں نے سوچا استاد ٹھیک کہہ رہے ہیں کیونکہ کھرک کے دوران سسکاریوں کے علاوہ ان کی زبان سے جو لفظ ادا ہورہے ہوتے ہیں وہ واقعی کسی اور ہی دنیا کا پتا دیتے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ میں ان کی تائید کرتا، استاد بولے’’یہ خارش کا علاج نہ کرانے کی ایک وجہ ہے، دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے‘‘۔
میں نے پوچھا’’وہ کیا ؟‘‘
بولے’’خارش دنیا کے امن و سلامتی کی ضامن ہے!‘‘
اس پر میں حیران ہوا اور پوچھا’’استاد! وہ کیسے؟‘‘
فرمایا’’تم نے مجھے کبھی خارش کرتے دیکھا ہے؟‘‘
میں نے کہا’’استاد! آپ کو ساری عمر خارش کرتے ہی تو دیکھا ہے‘‘۔
پوچھا’’اس وقت میری کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘‘
میں نے کہا’’آپ اس وقت بہت پرسکون نظر آرہے ہوتے ہیں اور آپ کے چہرے پر ا تنی شانتی ہوتی ہے کہ اس کی فوٹو لے کر اسے امن عالم کے مونوگرام کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘
یہ سن کر استاد خوش ہوئے اور بولے’’تم نے خود وہی بات کہہ دی جو میں کہنا چاہتا تھا۔ سو یہی وجہ ہے کہ میں نہ صرف یہ کہ خارش کا علاج نہیں کراتا بلکہ میری خواہش ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے سربراہ بھی خارش میں مبتلا ہوں تاکہ وہ انسانوں کے بہتے ہوئے خون سے لذت حاصل کرنے کی بجائے خارش سے لذت کشید کریں‘‘
اس دوران استاد پر اچانک کھرک کا حملہ ہوا ا ور انہوں نے اپنا ہاتھ جسم کے مختلف حصوں کی طرف لے جانا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لذت بھری سسکاریاں سنائی دینے لگیں۔ یہ سسکاریاں اتنی مشکوک قسم کی تھیں کہ میں نے اٹھ کر باہر گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں بند کردیں.........تھوڑی دیر بعد اس کھرک نے ان کی کمر کی طرف سفر شروع کیا اور پھر یہ اس حصے میں پہنچ گئی جہاں ان کا ہاتھ نہیں جاتا تھا، چنانچہ استاد اٹھے اور انہوں نے کمرے کے اس دروازے سے کھرکنا شروع کیا جو گزشتہ کئی مہینوں سے ا ن کی یلغار کی زد میں تھا، چنانچہ تیسری بار کھرکنے پر ہی وہ دھم سے نیچے آن گرا۔ اس پر میں نے استاد کو مخاطب کیا اور کہا’’استاد!یہ جو کھرک ہے، یہ امن عالم کی ضامن نہیں ہے‘‘
استاد جو دروازے کے نیچے آتے آتے بچے تھے اور کچھ پریشان سے لگ رہے تھے بولے’’وہ کیسے؟‘‘
میں نے جواب دیا’’وہ ایسے کہ آپ چھوٹی طاقت ہیں مگر آپ کی کھرک ایک دروازے کو بھی لے بیٹھی ہے جبکہ بڑی طاقتوں کی کھرک بھی بڑی ہوتی ہے۔ وہ تو اس کی لذت میں پورا پورا ملک بنیادوں سے اکھاڑ پھینکتی ہیں، لہٰذا بہتر ہوگا اگر آپ اپنی کھرک کو اپنے تک ہی محدود رکھیں اور اس کا دائرہ بڑی طاقتوں تک نہ پھیلائیں‘‘۔اس پر استاد نے پہلے میری طرف اور پھر فرش پر گرے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے جسم کے مختلف حصوں کو کھرکنے میں مشغول ہوگئے۔ ان کے چہرے کی اداسی سے لگتا تھا کہ انہیں اپنے امن عالم کے منصوبے کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوگیا ہے۔

.
تازہ ترین