• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ’’دہشت گرد دھرتی کا ناسور ہیں، دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ پرستی پاکستانی عوام کا مقدر نہیں ہیں ہم قائد کے پاکستان میں کسی کو آگ اور خون کا کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ معصوم زندگیوں سے کھیلنے والے عبرتناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ باتیں صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اُس وقت کہیں جب کمیٹی وزیراعظم کی زیرہدایت دہشت گردی کے خلاف پنجاب میں آپریشن کے حوالے سے یہ فیصلہ کر رہی تھی کہ اس میں رینجرز کی مدد بھی حاصل کی جائے اگرچہ اس کا طریق ِ کار بعد میں طے کیا جائے گا۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں قائم کی گئی اعلیٰ سطحی صوبائی اپیکس کمیٹی میں مشیر قومی سلامتی اپیکس، کورکمانڈر لاہور، آئی جی پولیس، ڈی جی رینجرز اور دوسرے سول اور عسکری اعلیٰ افسران و ذمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کئے جانے والے اقدامات پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ دہشت گردی و انتہاپسندی کے خاتمے کی خاطر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، سرحدی اضلاع کی کڑی نگرانی، افغان مہاجرین کی غیرقانونی نقل و حرکت پر پابندی سمیت کئی اہم فیصلے کئے گئے؎۔ چار گھنٹے پر محیط اجلاس میں محکمہ انسداد دہشت گردی اور سیف سٹی پروجیکٹ کی تعریف کی گئی اور آپریشن کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وطن عزیز میں ان دنوں جس طرح دہشت گردی کے سانحات لگاتار ہوئے ہیں بلاشبہ ان سے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فوری سوال یہ اٹھتا ہے کہ 16 دسمبر کے بدترین سانحہ پشاور کے بعد آل پارٹیز نے سول و عسکری قیادت کے ساتھ مل کر جو نیشنل ایکشن پلان طے کیا تھا اس پر کماحقہ عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ اس طرح سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات جتنے اس وقت خوشگوار ہیں کم از کم ماقبل نہ تھے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ خدا کرے کہ آنے والے برسوں میں تمام ریاستی و سیاسی ادارے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سی پیک کے بعد ہمارا ملک ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس کا اولین تقاضا پورے ملک میں امن و سلامتی کا قیام ہے ورنہ بیرونی سرمایہ کاری کو ایک سو ایک خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے اقوامِ عالم کے دوش بدوش ترقی کے سفر میں آگے بڑھنا ہے تو پھر یہاں دہشت گردی و انتہا پسندی کے لئے زیرو ٹالرنس درکار ہے۔
آج الحمدللہ پوری قوم یکسو ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پرائی نہیں ہماری اپنی بقا کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے اپنی قوم اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا ہے تو پھر ہمیں نہ صرف دہشت گردی کو ختم کرنا ہے بلکہ انتہا پسندی پر مبنی اس سوچ کا بھی قلع قمع کرنا ہے جو دہشت گردی کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔ آج جب ہمارے وزیراعظم خودکش حملوں پر یہ کہتے ہیں کہ یہ قائد کے ترقی پسند، پاکستان پر حملہ ہے یا ہمارے وزیراعلیٰ پنجاب یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد دھرتی کا ناسور ہیں اور ہمیں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرتے ہوئے اگر رینجرز کی مدد لینی پڑی تو وہ بھی حسب ضرورت لیں گے تو ان کا یہ جذبہ قابل فہم ہے۔ رینجرز کی مدد کے حوالے سے یہاں دو آرا رہی ہیں اول یہ کہ کراچی کی طرح پنجاب میں بھی رینجرز کا سخت استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی تمام پاکٹس کا خاتمہ کیا جائے چاہے ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہی کیوں نہ ہو۔
آج حالات بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت میں سیاسی و عسکری ہم آہنگی کم از کم جو اس وقت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ وفاق کی سطح پر بھی اس کی جھلکیاں مختلف واقعات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ وزیراعظم کا یہاں تک کہنا کہ دہشت گردی کے خلاف آرمی جہاں بہتر سمجھے اقدامات کر سکتی ہے، سی اعتماد کا مظہر ہے جب اوپر کی سطح پر اعتماد کی فضا بہتر ہوتی ہے تو اس کے اثرات لازماً نیچے بھی جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پنجاب کے وزیرداخلہ کھل کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ پنجاب میں رینجرز کے اختیارات کراچی سے بھی زیادہ ہوں گے۔ اس حوالے سے سمری منظور ہو چکی ہے بلکہ ہماری اطلاع کے مطابق رینجرز کا انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن شروع ہو چکا ہے جسے خفیہ رکھے جانے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہٰذا چائے کی پیالی میں جو لوگ طوفان اٹھانا چاہتے تھے امید ہے کہ وہ اپنے اس طرزِفکر پر نظرثانی فرمائیں گے بلکہ اس آپریشن کے پورے ملک میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ مسئلہ سندھ یا پنجاب کا نہیں ہے اگر دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں یا اپنی اگلی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو اس برائی کو دبائے جانے کا اہتمام ہونا چاہئے ساتھ ہی اس سوچ کو بھی قوی ہونا چاہئے کہ ہم نے اس فتنہ کی محض ٹہنیاں یا پتے کاٹنے پر اکتفا نہیں کرنا ہے جڑ کاٹنی ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے بہت سے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ہے کیا؟ اس سلسلے میں حکومت اور میڈیا دونوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ہمارے عام سے عام فرد تک اس متفقہ قومی دستاویز کی تفصیلات پہنچیں۔ جہاں تک اس پر عمل درآمد کا تعلق ہے اُس پر زور محض خارجی حوالوں سے ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ داخلی حوالے سے بھی ہمیں اُن کڑوے اقدامات کو اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے جن میں قوم کی دوررس اور حقیقی بھلائی ہے۔

.
تازہ ترین