• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھیلنے، مقابلہ کرنے اور جیتنے کا عزم ہماری قوم کی شریانوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے۔ ایک دنیا ہمارے اس عزم کے مقل کھڑی ہے جو اپنی شرائط اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے مختلف چالیں چل رہی ہے۔ سامنے کوئی اور ہے اور عقب میں کئی بیرونی طاقتیں سر جوڑے پاکستان کے وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور پاکستانی عوام کے جذبے کو سرنگوں کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جسم کو جسم کے ذریعے فنا کیا جا سکتا ہے، مٹی کو مٹی میں ملایا جا سکتا ہے مگر جذبوں اور عزم کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ حکومت نے لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل مقابلے کا اعلان کر کے ایک آزاد، خود مختار ریاست ہونے کے اعلان کے ساتھ ساتھ بیس کروڑ لوگوں کا مورال بلند کیا ہے اور اصولوں پر قائم رہنے کا عندیہ دے کر اپنی رٹ قائم کی ہے اور پوری قوم حکومت کے اس فیصلے پر اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ شر پسند عناصر دنیا کے حسن کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ان کی فکر یرغمال ہو چکی ہے۔ انہیں خود بھی خبر نہیں کہ وہ چند ٹکوں کی خاطر اپنے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔ وہ ہر اس عمل کے خلاف ہیں جس سے عام انسان کو خوشی میسر ہو، اطمینان کا سانس لینا ممکن ہو اور اس کی ذات کا اظہار ہو۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ انسان کی آنکھوں میں حسرت جامد ہو کر رہ جائے۔ ان کے دل تو دھڑکیں مگر دھڑکن کی آواز سنائی نہ دے کیوں کہ دھڑکن کی آواز قہقہے، گیت، ڈرامے، تصویر اور دھمال میں سنائی بھی دیتی ہے اور نظر بھی آتی ہے۔
پاکستانی قوم نے پچھلے کئی سالوں سے بے شمار اذیتیں جھیلیں، درد برداشت کئے، دکھ سہے، اپنوں کی جدائی سے ہمکنار ہوئے، زندگی کو بکھرتے دیکھا اور انسانیت کو پستی میں گرتے محسوس کیا مگر دوبارہ اٹھ کر کھڑے ہونے اور مقابلہ کرنے کا جذبہ ترک نہیں کیا۔ ہر آزمائش انہیں زیادہ مضبوط کرتی گئی۔ انہوں نے کسی بھی پرتشدد کارروائی کے بعد اپنی حکومت اور فوج کو حکمت عملی تبدیل کرنے اور ہتھیار پھینکنے کی درخواست نہیں کی بلکہ ان کے شانہ بشانہ لڑنے کے عزم کا اعادہ کر کے ان کا حوصلہ بلند کیا اور ان کے فیصلوں پر تصدیق کی مہر لگائی۔
انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق یہی ہے کہ انسان کسی مقصد کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ کروڑوں سالوں سے یہ دنیا آباد ہے۔ اس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور حادثات سے گزری مگر آگے بڑھتی رہی۔ وہ لوگ جو انسانیت کے حوالے سے خیر کے پیامبر بن کر خدمات سرانجام دیتے رہے وہ تاریخ میں امر ہو گئے۔ ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہ کوئی ان کا مذہب پوچھتا ہے، نہ ان کے فرقے کی بات کی جاتی ہے، نہ ان کی قومیت مدنظر رکھی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے علاقے کی وجہ سے ان کی توقیر کی جاتی ہے۔ صرف ان کا عمل دیکھا جاتا ہے۔ سائنس دان (فلاحِ انسانیت کیلئے ایجادات کرنے والے)، حکماء، ادباء،صوفیاء پوری دنیا سے محبت وصول کرتے ہیں اور دنیا انہیں اپنا سمجھتی ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے عمل اور پیغام سے انسان کی بھلائی کے لئے جدوجہد کی۔ پاکستان کی بات کریں تو گنگا رام، گلاب دیوی، کنگ ایڈورڈ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے کیوں کہ ان کا فیضِ عام کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسی بہت سی شخصیات موجود ہیں جو خیر کے رستے کی مسافر ہیں اور دنیا کو فلاح کی طرف لے کر جانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان طاقتوں کو زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ کائنات ایک توازن کا نام ہے۔ خیر اور شر میں ہر وقت جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں خیر کی سربلندی کے لئے باطنی طور پر ہدایت یافتہ لوگوں کو رہنمائی کے لئے آگے آنا چاہئے ورنہ نیم حکیم معاملات بگاڑنے کے لئے اور سادہ لوح عوام کو بہکانے کے لئے پوری قوت سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں لاہور میں کرکٹ میچ کا انعقاد ایک خوش خبری کے ساتھ ساتھ دنیا کو ایک باوقار قوم کا فیصلہ سنانا بھی ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ ہم ہارنے والے نہیں۔ جب سے ملک میں کرکٹ کے عالمی مقابلے کم ہوئے ہیں ہمارے میدان ویران ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ابھی پی ایس ایل کے فائنل کا اعلان ہوا ہے تو پاکستان کے تمام شہروں میں لوگوں نے کرکٹ کا سامان اور لباس خریدنا شروع کر دیا ہے۔ نوجوانوں کو ایک فیسٹیویٹی میسر آ گئی ہے۔ اب قذافی ا سٹیڈیم میں صرف گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نہیں کھیلے گی بلکہ پورا پاکستان کھیلے گا اور میدان کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن کے ذریعے اس سے محظوظ ہو گا۔ کرکٹ کے کھیل کو فروغ حاصل ہو گا۔ نوجوان جو صرف انٹرنیٹ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں انہیں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کا موقع ملے گا۔ وہ کھیل سے زندگی کی مثبت قدروں سے روشناس ہوں گے۔ ان کے اندر ا سپورٹس مین شپ پیدا ہو گی۔ وہ درگزر کرنا اور فیصلہ تسلیم کرنا سیکھیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ کھلاڑی جو ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ابھی تک اسپورٹس مین اسپرٹ دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔
اگر ہم پی ایس ایل کا فائنل منعقد کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی کامیابی ہو گی۔ میں محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کرکٹ بورڈ، حکومتِ وقت اور پاک فوج کے اس فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے اس چیلنج کو قبول کر کے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب قوموں پر ایسا وقت آ پڑے کہ جب چھپا ہوا بزدل دشمن پشت پر وار کر کے قوم کی پہچان کو امتحان میں ڈال دے تو رہنمائوں کے جرأت مندانہ فیصلے ہی قوموں کو یکجا اور متحد کر کے ہر طرح کے حالات کے سامنے ڈٹ جانے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ یہ ایک کھیل نہیں ایک نئی منزل کا آغاز ہے کہ اب ڈکٹیشن کا وقت گزر گیا۔ اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ ہم لڑیں گے، ہم کھیلیں گے، ہم جیتیں گے کیوں کہ ہمارا مقصد خیر پر مبنی ہے ۔ جو بیرونی طاقتیں ہمارے ملک میں آگ لگانے کے لئے ماچس کی فیکٹریاں تیار کر رہی ہیں انہیں خیال رکھنا چاہئے کہ آگ کو سرحدوں کی پروا نہیں ہوتی کبھی کوئی چنگاری اُڑ کر ان کے آنگن میں بھی گر سکتی ہے۔

.
تازہ ترین