• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو ملکوں کے درمیان کھلی جنگ اور دہشت گردوں کے اعلانِ جنگ میں کیفیتی فرق پایا جاتا ہے۔ ملکوں کی جنگ کے میدان اور باہم متصادم قوتیں سامنے ہوتی ہیں جب کہ دہشت گرد چھپ کر وار کرتے ہیں۔ یہ مقولہ بالکل بجا ہے کہ ایک دہشت گرد فدائی ہزاروں پر بھاری ہوتا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون واقعہ کے بعد جب سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سلسلے میں 90ڈگری پر یو ٹرن لیا ہے تب سے ان عناصر نے ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے اور یہ ایک بھی نہیں بلکہ مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں جن میں سے بعض کے بھارت کی خفیہ ایجنسی اور کچھ کے داعش کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ پشاور کینٹ کےا سکول میں ننھے فرشتوں پر دہشت گردوں کی ڈھائی گئی قیامت صغریٰ کے بعد ہم نے اچھے اور بُرے طالبان کی تخصیص چھوڑی۔ بظاہر لگنے لگا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی لیکن پانچ روز کے اندر مال روڈ لاہور، حیات آباد پشاور اور سہون شریف سندھ میں دہشت گردی کی وارداتوں نے پھر سے قوم کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ ’’سو قدم پیچھے، ایک قدم آگے‘‘ دہشت گردی کی مخصوص سائنس ہے۔ ضربِ عضب میں شدید نقصان اُٹھانے کے باعث آگ، خون اور انسانی جانوں کے بیوپاری سو قدم پیچھے ہٹ گئے جسےہم نے اپنی مستقل فتح سمجھا لیکن دہشت گردوں کے ایک قدم ہی سے سب کے دعوئوں اور خوش فہمیوں کی قلعی کھل گئی۔
دہشتگردی کی لپیٹ میں آئے افغانستان اور پاکستان دونوں پر واجب ہے کہ اس سلسلے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے اُن مجبوریوں کو سامنے رکھیں جو دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے دوطرفہ طور پر لاحق ہیں۔ راقم جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہائی جیکر زکی مانگ پر رہا ہو کر کابل پہنچا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روس نے افغانستان پر ابھی نیا نیا قبضہ کیا تھا جس کے باعث قریب رہ کر اس ایشو کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ باجوڑ، کرم اور مہمند ایجنسیوں کے راستے کابل سے آتے جاتے راقم کو افغانستان کا لینڈ اسکیپ سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ قیاس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ بقیہ زمین بھی ویسی ہی ہو گی۔ افغانستان فطری کمین گاہوں پر مشتمل ملک ہے اور پاک افغان سرحد پر کہیں بادلوں کا سینہ چیرتی پہاڑی چوٹیاں ہیں تو کہیں گہری اور تاریک گھاٹیاں۔ افغان حکومت کے بارے میں اس پہلو کو پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے کہ نیٹو افواج کے وہاں ہونے کے باوجود اُس کا مؤثر کنٹرول فقط کابل اور چھوٹے بڑے چند شہروں کے گنجان آباد علاقوں تک ہی محدود ہے جبکہ بقیہ ماندہ مختلف لڑاکا گروہوں کے ٹھکانوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح پاکستان بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن اُن کے چھپنے کی تمام جگہوں پر مستقل کنٹرول حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بھی اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی طرح افغانستان کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہے جس کا وہ سدِّباب چاہتا ہے۔ دونوں طرف تباہی پھیلانے والے ان عناصر پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے:
۱۔ہمیںچاہئے کہ افغانستان کے حوالے سے اپنے وضع کردہ ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کے ڈاکٹرائن سے دست برداری اختیار کر کے افغان حکومت پر ثابت کریں کہ اُس کے عدمِ استحکام کی کوشش میںہمارا کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں حکومتوں کے ذمہ داران ان عناصر کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیںاور دونوں ممالک کے وزارتِ داخلہ اور سیکورٹی کی ذمہ دار خفیہ ایجنسیوں کی اعلیٰ سطحی کمیٹیاں قائم کی جائیں جو دو طرفہ جاری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سہ ماہی اہداف متعین کریں اور ہر اگلی نشست میں دیکھیں کہ گزشتہ طے کردہ ہدف میں وہ کس قدر کامیاب ہوئے اور دہشت گردوں کے بارےمیں معلومات کا دیانتداری سے تبادلہ کریں اور کسی ایسے سمجھوتے پر متفق ہو جائیں جس کے تحت دونوں ممالک کی عسکری قوتیں مل کر ایک دوسرے کی سرزمین پر دہشت گردوں کا پیچھا کر سکیں۔
2۔پاک افغان سرحد کو پاک بھارت سرحد کی طرح بند کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ دونوں ممالک کی قیادتیں مل کر بارڈر مینجمنٹ بہتر بنائیں جس سے دہشت گردوں کے آر پار آنے جانے میں میسر آسانی ختم ہو۔
3۔ چند مسلم ممالک اپنے اپنے مسلک کے فروغ اور علاقائی سیاست کی اغراض کے تحت اپنے پاکستانی ہم مسلکوں کو عرصہ ٔ دراز سے مالی معاونت فراہم کرتے چلے آ رہے ہیںجس سے یہاں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو ایسے قوانین وضع کرنے چاہئیں جن کے تحت اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
4۔ایک اندازے کے مطابق ابھی بھی لاکھوں افغان مہاجرین بغیر رجسٹریشن کے پاکستان میں موجود ہیں۔ دہشت گردی پر مؤثر کنٹرول کیلئے از حد ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو سکے انہیں واپس افغانستان رخصت کیا جائے اور جب تک آخری افغان مہاجر یہاں موجود ہے بغیر نادرا کے ریکارڈ میں آئے اُن کی موجودگی کو سخت جرم قرار دیا جائے۔
5۔فاٹا کے تحت علاقہ جات کا غیر منصفانہ اسٹیٹس بدل کر انہیں دوسرے علاقوں کی طرح باقاعدہ طورپر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ یہ قبائلی عوام کی صوابدید پر چھوڑا جائے آیا کہ وہ کے پی کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں یا وفاق کے علیحدہ یونٹ کے طور پر اُن کی تسلی ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں سڑکوں کی لمبائی چوڑائی بڑھانے اور پلوں کی تعمیر پر ہی توجہ نہ دی جائے بلکہ وہاں انڈسٹری اور زراعت کو فروغ دیا جائے۔
6۔ملک میں قیامِ امن کے ضروری ہے کہ غربت، جہالت اور بیروزگاری کے اندھیرے دُور کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک کروڑ سے زائد ایسے نوجوان جو کام کرنے کی عُمر کو پہنچ چکے ہیں، بے کار ہیں۔ دہشت گردوں کو یہیں سے مذہب اور فرقے کے نام پر خام مال میسر آ رہا ہے۔ ملک میں دہائیوں سے جاری نادر شاہی لوٹ مار کو ختم کئے بغیر امن کی خواہش تشنہ ہی رہے گی۔

.
تازہ ترین