• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک فوج نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ملک بھر میں ’’ردّالفساد‘‘ کے نام سے جو جامع آپریشن شروع کیا ہے اسے مبصرین دہشت گردی کے کھلے اور چھپے خطرات ختم کرنے کی فیصلہ کن کارروائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس آپریشن کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت لاہور میں منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ دہشت گردی کے باقی ماندہ خطرے سے نمٹنا، اب تک کئے گئے انسداد دہشت گردی کے آپریشنوں کی کامیابیوں کو مستحکم بنانا اور سرحدوں کی سیکورٹی سخت کرنا اس آپریشن کے بڑے مقاصد کا حصہ ہے۔ آپریشن میں بری، بحری اور فضائی افواج کے علاوہ نیم عسکری اور سول ادارے بھی بھرپور حصہ لیں گے۔ اُدھر وزارت داخلہ نے ایپکس کمیٹی کی سفارش پر رینجرز کو پنجاب میں 60دنوں کے لئے کارروائیوں کی اجازت مشروط اختیارات کے ساتھ دیدی ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن ’’ردّالفساد‘‘ کے چار اہم عناصر میں سے دو نئے عناصر پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور ملک کو اسلحے سے پاک کرنے سے متعلق ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سمیت ملک کے جن حصوں میں پہلے سے آپریشن چل رہے تھے وہاں بدستور کارروائی جاری رہے گی۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد پر بھی خاص توجہ دی جائے گی۔ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر آنے کے بعد یہ ضروری بھی ہوگیا ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پوری طرح بروئے کار لائے جائیں۔بدھ کے روز نیا آپریشن شروع کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا اس کے دوسرے روز لاہور میں ڈی ایچ اے کے علاقے میں دھماکہ کے باعث ابتدائی اطلاعات کے مطابق 8افراد کے جاں بحق اور 21کے ز خمی ہونے کی اطلاعات نے عوام میں سراسیمگی پھیلا دی۔ اگرچہ صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے مطابق دھماکہ گیس سلنڈر پھٹنے سے ہوا مگر آنے والے دنوں میں عوام میں مایوسی پھیلانے کیلئے دہشت گردی کی کوششوں کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا جن سے نمٹنے کیلئے سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی چوکنا رہنا ہوگا۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ پاکستان میں جب بھی انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور بیرونی ایجنٹوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کی جاتی ہے افغان بارڈر، کشمیر کی کنٹرول لائن اور پاک بھارت ورکنگ بائونڈری پر دوسری جانب سے ایسی سرگرمیاں شروع کردی جاتی ہیں جن کا مقصد اصل کارروائی سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔ اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون ہوا ہے اور افغانستان سے دراندازی کرنے والوں کی روک تھام کے اقدامات کے ساتھ کابل حکومت کو مشترکہ دشمنوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کی تجاویز دی گئی ہیں تو بھارتی وزیراعظم نے پاک افغان تعاون کے امکانات سبوتاژ کرنے اور جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے افغان صدر کو ایسا پیغام بھیجا جس کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف اسلام آباد کی کارروائی کو بالکل مختلف معنی دیئے گئے اور دراندازی روکنے کیلئے اپنی سرحدوں کے اندر لگائی گئی پاکستانی توپوں کے جواب میں نئی دہلی کی ایما پر کابل کی طرف سے پاکستانی سرحدوں کے قریب بھاری توپیں لگادی گئی ہیں۔ خود بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیزی میں اضافے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی فوج پچھلے برسوں کے دوران کئے گئے آپریشنوں کے ذریعے ’’نوگوایریاز‘‘ میں ریاست کی عملداری بحال کرنے کے بعد اب ملک کے طول و عرض میں چھپے ہوئے اور باہر سے داخل ہونے والے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے تو اس بات کی ضرورت بڑھ گئی ہے کہ فعال و متحرک سفارت کاری کے ذریعے نئی دہلی کے معاندانہ پروپیگنڈہ کو ناکام بنایا جائے اور بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ سفارتکاری کے ہتھیار کو درست طور پر استعمال کرنے میں اگر ماضی میں کسی قسم کی کمزوری ظاہر ہوئی ہے تو اب اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین